Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: باطل معاملات

باطل معاملات مسئلہ ۴٠٧. چند جگہوں پر معاملہ باطل ہے.
١. بنا بر اقوی عین نجس جیسے پیشاب، پاخانہ اور مست کرنے والی چیزوں کی خرید وفروخت صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کوئی حلال فائدہ مضمر ہو اس صورت میں اس کی فروخت قوت سے خالی نہیں ہے.
٢. غصبی مال خریدنا اور بیچنا مگر یہ کہ اس کا مالک معاملہ کی اجازت دیدے.
٣. ایسی چیز کی خرید وفروخت جس کی کوئی مالیت نہ ہو(جسیے چنے کا ایک دانہ).
۴. ایسی چیزوں کا معاملہ جن کا عمومی فائدہ حرام ہو جیسے جوئے کے وسائل.
٥. وہ معاملہ جس میں ربا ہو اور معاملہ میں دھوکہ دھڑی بھی کرنا حرام ہے یعنی ایسی چیز بیچنا کہ جس میں کوئی دوسری مخلوط ہو اس طرح کہ وہ دوسری چیز ظاہر نہ ہو اور بیچنے والا خرید دار کو نہ بتائے مثلاً ایسا گھی بیچنا جس میں چربی ملی ہوئی ہو اس عمل کو(غش)دھوکہ کہتے ہیں.
پیغمبر اسلام سے منقول ہے وہ مجھ سے نہیں ہے جو مسلمانوں کے ساتھ معاملہ میں غش یعنی دھوکہ دھڑی کرے یا انھیں نقصان پہنچائے یا فریب دے اور حیلہ سے کام لے، جو بھی اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دے پرودگار عالم اس کی روزی سے برکت اٹھا لیتا ہے اور اس کے معاش کے راستے بند کر دیتا ہے اور اسے خود اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے.

مسئلہ ۴٠٨. مست کرنے والی چیز کی خرید وفروخت حرام اور ان کا معاملہ بھی باطل اور حرام ہے.

مسئلہ ۴٠٩. قمار یا چوری یا باطل معاملہ سے حاصل کی گئی(رقم سے)کوئی چیز خریدنا باطل اور اس مال میں تصرف کرنا حرام ہے اور اگر کوئی اس چیز کو خرید لے تو اسے اس چیز کو اصلی مالک کو واپس کر دینا چاہئے.

مسئلہ ۴١٠. جس چیز سے حلال استفادہ کیا جا سکتا ہے اسے اس نیت سے فروخت کیا جائے کہ اس کا استمال حرام کام ہو مثلاً اگر کوئی انگور اس قصد سے بیچے کہ اس سے شراب بنائی جائے تو اس کی خرید وفروخت حرام وباطل ہے.

مسئلہ ۴١١. جس جنس کی ارزش اور قیمت زیادہ ہو اگر اس کو اس جنس کے عوض فروخت کریں کہ جس کی ارزش و قیمت کمتر ہے اور اس صورت میں کہ اس قسم کے معاملہ سے اضافی مقدار ادا کرنے والے پر ظلم ہو اور اس کے اقتصادی بندے اور اس کے مالی دیوالیہ پن کا باعث بنے اور یہ عرفاً(عام)میں برائی وباطل کام محسوب ہو تو ربا حرام ہے اور ایک ربا کا گناہ، اس بات سے کہیں بڑھ کر ہے کہ انسان ستر مرتبہ اپنی محرم سے زنا کرے.

سوال ۴١٢. ایک چیز کو دوسری چیز سے خریدوفروخت کرنا(جنس سے جنس کا معاملہ)یہ کس طرح کا معاملہ ہے؟اس کا شرع اور تعیین شدہ قانون میں حکم کیا ہے؟
جواب: ایسا معاملہ کہ جس میں خریدی اور بیچی جانے والی چیز ادھار ہو اور اس کی ایک مدت ہواس کو معاملہ(جنس سے جنس کا معاملہ)کہتے ہیں ایسا معاملہ محل اشکال اور مورد تامل ہے گرچہ اس کا صحیح ہونا وجہ سے خالی نہیں ہے اور جس معاملہ کا بطلان مسلم ہے وہ قرض کا قرض سے معاملہ کرنا(بیع الدین بالدین)یعنی خود قرض سے ایسی چیز کو فروخت کرنا جو پہلے قرض تھی اور (جنس سے جنس)کی صورت میں معاملہ کرتے وقت بالفعل کوئی قرض نہیں ہے بلکہ معاملہ تمام ہونے کے بعد قرض وجود میں آتا ہے قرض سے قرض کی صورت میں جو معاملہ کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ بالفعل قرض سے متعلق ہے نہ کہ بعد میں ہونے والے قرض سے.

سوال ۴١٣. سونے کے زیور میں کوئی چیز بنانے کی اجرت کے عنوان سے اضافہ کر کے، غیر ساختہ خالص سونے کو اس کے معاوضہ میں قرار دینا صحیح ہے یا نہیں؟
جواب: جس جنس کی قیمت زیادہ ہے اسے اگر کم قیمت جنس کے بدلے فروخت کیا جائے تو اس قسم کا معاملہ اضافی مقدار ادا کرنے والے کے لئے اقتصادی جمود اور مالی دیوالیہ پن اور عرف عام میں برائی اور ظلم وستم کا باعث بنتا ہو تو یہ سود ربا ہے اور حرام ہے اور ایک درہم سو ربا کا گناہ کسی محرم عورت کے ساتھ ستر مرتبہ زنا کے گناہ سے بڑا گناہ ہے میں فرق نہیں ہے کہ سودی معاملہ دو اجناس مثلاً سونا اور چاندی میں ہو یا ایک جنس مثلاً فقط سونا میں ہو.

اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org