Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: شادی کے دیگر مسائل

شادی کے دیگر مسائل مسئلہ ٥٩٩. جو بیوی کے نہ ہونے کی وجہ سے حرام میں مبتلا رہا ہو اس کے لئے واجب ہے کہ شادی کر لے.

مسئلہ ۶٠٠. اگر مرد عقد میں شرط کر لے کہ لڑکی کو باکرہ ہونا چاہئے اور عقد کے بعد پتہ چلے کہ وہ باکرہ نہیں تھی تو وہ عقد کو توڑ سکتا ہے.

مسئلہ ۶٠١. اگر مرد کو معلوم نہ ہو کہ عورت عدہ میں ہے اور اس سے شادی کر لے چنانچہ عورت کو بھی پتہ نہ ہو اور ان دونوں میں سے کوئی بچہ پیدا ہو جائے تو وہ حلال زادہ ہے اور شرعاً ان دونوں کا فرزند ہے لیکن اگر عورت کو علم ہو کہ وہ عدہ میں ہے تو بچہ شرعاً باپ کی اولاد ہو گا البتہ دونوں صورتوں میں ان کا عقد باطل ہے اور وہ ایک دوسرے پر حرام ہیں.

مسئلہ ۶٠٢. جو عورت آزاد، مسلمان اورعاقل ہے اس کی اگر کوئی لڑکی ہو تو جب تک اس کے سات سال پورے نہ ہو جائیں اس کا باپ اسے ماں سے جدا نہیں کر سکتا.

سوال ۶٠٣. ایک بیوی ہوتے ہوئے دوسری بیوی لانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر کسی کو خوف ہو کہ اپنی بیویوں کے درمیان عدالت نہ برت سکے گا تو وہ دوسری شادی نہیں کر سکتا اسے چاہئے کہ دونوں کے درمیان عدالت برتنے کی قوت کو اپنے اندر یقینی کر لے اسی طرح اگر اسے شک ہو کہ وہ عدالت برت سکے گا یا نہیں تو بھی دوسری شادی کا اسے حق حاصل نہیں ہے چونکہ جواز کی شرط یقینی ہونی چاہئے.

سوال ۶٠۴. اگر عورت کے لئے ہمبستری ضرر کا باعث ہو تو کیا وہ قبول کرنے سے انکار کر سکتی ہے؟
جواب: عورت کی ایسی بیماری جو ہمبستری سے مانع ہو عورت و مرد کے درمیان ناسازگاری کا باعث نہیں ہے چونکہ عورت کا منع کرنا عذر کی بنا پر ہی.

سوال ۶٠٥. اگر مرد بیوی کے یونیورسٹی جانے یا آفس یا کسی بھی دوسری جگہ جانے کا مخالف ہوتو عورت کا شرعی طور پروظیفہ کیا ہی؟
جواب: عورت کا وظیفہ شوہر کی پیروی ہے مگر یہ کہ عقد کے درمیان اس کے برعکس وہ شرط کر لے یا اسی شرط پر بنا رکھتے ہوئے عقد کیا گیا ہو ہاں اگر شوہر کی پابندی اس درجہ ہے کہ ناقابل تحمل حرج اورمشقت کا باعث ہے تو حرج اور ضرورت کو رفع کرنے کی حد تک جائز ہے اس لئے کہ ”ضرورت موانع کو مباح کر دیتی ہی“.

سوال ۶٠۶. شیعہ فقہاء نے نکاح کے باب میں اپنی مفصل کتابوں میں بیان کیا ہے کہ اگر عورت حبس اور کسی بیماری کی وجہ سے لذت حاصل کرنے سے منع کرے اورشرعاً معذور ہو تو عذر کے برطرف ہونے اور لذت حاصل کرنے کے لئے اس کے راضی ہونے تک شوہر پر مہر ادا کرنا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ مرد عذر سے واقفیت کے بعد شادی کے بارے میں اقدام کرے اس لئے کہ فقہاء کے نزدیک اس کے اس اقدام نے لذت حاصل کرنے کے حق مطالبہ کو اس کے عذر کے رفع ہونے تک ساقط کر دیا ہے اب اگر یہی صورت مہر کے متعلق مرد کے لئے پیش آ جائے اور شوہر ادا کرنے پر اس وقت قادر نہ ہو بلکہ معذور ہو اور زوجہ علم رکھتے ہوئے اس سے شادی کرے تو کیا اس کے اس اقدام سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے مہر کے حق مطالبہ سے استطاعت پیدا ہونے اور عذر کے رفع ہونے تک صرف نظر کر لیا ہے؟بالآخر کیا ایسی زوجہ پر لذت کے لئے راضی ہوجانا واجب ہے؟ اورمہر ادا کرنے تک اس سے ممانعت کا حق نہیں رکھتی؟
جواب: ایسا معلوم ہوتا ہے سوال کی مفروضہ صورت میں عورت کا لذت حاصل کرنے کے لئے راضی ہونا واجب ہے چونکہ عقد نکاح کا اجرا اوراس کا ایجاب نقد مہر کی صورت میں زوجہ کے اس بات سے علم رکھنے کے بعد ہوا ہے کہ شوہر مہر ادا کرنے کی قدرت عقد اوررخصتی کے وقت نہیں رکھتا ہے لہذا مطالبہ کا حق بھی شرعاً ساقط ہے اور ملازم بارضایت ہے بنا بریں نکاح اور اس کے آثار (دخول، لذت اٹھانا وغیرہ)کا مرتب ہونا قدرت نہ ہونے کے زمانے میں ہی. ہاں اگر انشائے نکاح صرف ایک ازدواجی رشتہ کو پیدا کرنے کے لئے ہوتو نکاح میں تقابض (جو کہ دیگر معاوضات کی طرح ہی) کی خاطر زوجہ کاحق مطالبہ ثابت ہے لیکن یہ معنی صرف ایک فرض ہے جو کہ متعارف معنی سے خارج ہے یہ پہلی صورت ہے اس کے علاوہ معاملات میں اصل وجوب تسلیم اورایک دوسرے کے حوالہ کرنے کی شرطیت کا نہ ہوتا ”اور صرف عقد استحقاق کا موجب ہے مگر یہ کہ شرطیت کی دلیل کی وجہ سے خارج ہو جائی“لیکن فقہاءکے کلمات کااطلاق جنہوں نے تصریح کیا ہے کہ جب تک شوہر مہر ادا نہ کرے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ معذور ہو یا قادر، زوجہ کو ممانعت کا جواز حاصل ہی. لذا شرائع میں ہے کہ جب تک وہ مہر نہ لے لے چاہے تو اپنے کو(شوہرکی) حوالہ نہ کرے چاہے شوہر معذور ہو یا قادر، یہ اطلاق اس سوال کو بھی اپنے اندر شامل کرلے مشکل بلکہ ممنوع ہے اس استدلال کی بنا پر جو فرمایا ہی:جو اہر میں ہے کہ ضرورت یعنی معذور ہونے کی بنا پر ادلہ شرعیہ کے پیش نظر اگر مطالبہ کے حق کو ساقط کر دیا تو بھی معاوضہ کاحق ساقط نہیں ہوتا. ظاہر استدلال عذر کی بنا پر معاوضہ کے حق کا ساقط نہ ہونا اوراس کا لازمہ علم ہونے کی وجہ سے اس کاحق ضائع اورساقط ہو جانا ہے چونکہ ایسے امر کا اقدام جو موجب حق ہو اس فرض کے ساتھ کہ وہ کام عملی ہونے کے قابل نہ ہو اسقاط میں ظہور رکھتا ہی.

سوال ۶٠٧. اگر زوجہ کا مہر نقد ہو تو کہا جاتا ہے کہ جو وظائف وہ شوہر کے مقابل رکھتی ان سے منع کر سکتی ہے یہاں تک کہ اس کا مہر ادا کر دیا جائے اب سوال یہ ہے کہ اس صورت مین کہ جب بیوی شوہر کے گھر چلی گئی ہو اور اپنے کوتسلیم کر چکی ہو لیکن شوہر اس کے ساتھ جماع نہ کر سکا ہو، کیا پھر بھی زوجہ مہر کی جو شرح بیان ہوئی ہے اسکی بنا پر مطالبہ کر سکتی ہے اور مہر ادا ہونے سے پہلے زوجیت کے فرائض پر عمل کرنے سے انکار کر سکتی ہے یا یہ کہ اپنے کو شوہر کے حوالہ کرنے سے اپنا حق کھو بیٹھی ہے اور فقط مہر طلب کرنے کاحق رکھتی ہی؟
جواب: بعید نہیں ہے کہ زوجہ نے چونکہ لذت کے لئے اپنے کو پیش کر دیا ہے اگرچہ شوہر مقاربت نہ کرے بالخصوص جبکہ اس کے اندر اس کی طاقت نہ ہو، حق ساقط ہو جائے. تسلیم نہ کرنے کی صورت میں زوجہ کا اصل حق، نقد مہروصول کرنے سے قبل، تقابض کی صورت میں ثابت ہے جو معاوضہ کا مقتضیٰ ہے اورصرف دخول کا ہونا ظاہراً کوئی خصوصیت نہیں رکھتا ہے. مطلب بطور کام روشن ہو نے کے لئے ”جواہر الکلام“کی ایک عبارت ملاحظہ ہو.
وفیھا فی المسالک ایضاً:انہ فرق مع عدم الدخول بین کونھا قد مکنت منہ فلم یقع وعدمہ فلھا العود الی الامتناع بعدالتمکین الی ان تقبض المھر، ویعودالحکم الی ماقبلہ، لما تقرر ان القبض لا یتحقق فی النکاح بدون الوطی، قلت:قدیقال:ان ذلک منھا اسقاط لحقھا ولیس فی الادلة تعلیق الحکم علی الوطی (ج١٣ص٣۴، کتاب النکاح باب المھر).
”مسالک میں بھی ہے کہ:عدم دخول کے ساتھ فرق ہے کہ زوجہ نے اپنے کوتمکین کی خاطر حوالہ کردیا ہو لیکن شوہر مقاربت نہ کر سکا ہو اوراس کے درمیان کہ زوجہ نے اصلاً اپنے کو حوالہ نہ کیا ہو تو زوجہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے کو حوالہ کرنے کے بعد مہر وصول کرنے تک انکار کری، پس اس صورت میں اپنے ما قبل کی طرف حکم پلٹ جائے گا مکرر بیان ہوچکا ہے کہ بغیر دخول کے نکاح میں قبض متحقق نہیں ہوتا ہے میں نے کہا :کہا جاتا ہے کہ :زوجہ کا اپنے آپ کو حوالہ کرنا، اس کا اپنے حق کو ساقط کردینا ہے اوردلیلوں میں کوئی دلیل حکم کو وطی پر معلق نہیں کرتی ہی.

سوال ۶٠٨. چونکہ مجلس شورائے اسلامی کے حقوقی اورعدلیہ کے امور سے متعلق ممبران کے درمیان بالخصوص مہر کے حوالہ سے مدنی قانون کو شق نمبر٢٨٠١ سے ایک تبصرہ ملحق ہی، لہذا مطلب کی اہمیت اوراس کے فقہی پہلوؤں کے پیش نظر آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس سے استفادہ کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرما دیں؟
جواب: بعید نہیں ہے کہ اگر ہم نہ کہیں کہ جو مہر جنس کی قمیت اور اشتغال ذمہ کہ جو بطور نقد رائج ہو کہ کلی موارد میں مافی الذمہ کا نقد ہونا مالیت کے ساتھ ظاہر ہے جو اسی وقت خرید کی قدرت پیدا کرتا ہے اس لئے کہ وہی قدرت، عامل رغبت ہے اورمالیت کی موجب ہے اور وہ بھی عین مضمون کی تابع ہے ورنہ ایک نقش شدہ کاغذ کی نہ کوئی قیمت ہے اور نہ ہی وہ رغبت کا باعث ہے اور واضح ہے کہ قدرت خرید کی بنا پر ہی تو دس روپے کے نوٹ کی مالیت پچاس روپے کے نوٹ کی مالیت سے جدا ہو جاتی ہی.
لہذا سوال میں جو چیز فرض کی گئی ہے اور باب مہر میں جس چیز کی زوجہ طلبگار ہے اورشوہر کے ذمہ واجب ہے وہ نقد کی وہی رائج مقدا ر ہے کہ جو عقد میں بیان ہوئی ہے اور آج بھی مہر کے عنوان سے وہی مقدار سکہ رائج الوقت کی ادا ہونی چاہئے کہ جو قدرت خرید کو تامین کرے تاکہ عرفی مثال کے مطابق کہ (اصل ضمان میں براءت ذمہ ہی) ضمانت سے چھٹکارا مل جائے. اسکے علاوہ کہ اصطلاحی مثل کی ادائیگی مابہ التفاوت کے ساتھ متحقق ہو چکی ہے اورمشہور نظریہ کے مطابق کہ ضمان قیمت مثلی میں مثل اور قیمتی میں قیمت ہونا چاہئے پر بھی عمل ہو چکا ہے ناگفتہ نہ رہے کہ اگر مسئلہ تناسب قیمتوں میں شاخص افزایش اورقدرت خرید میں تغییر کی طرف پلٹ جائے و عرفاً اسی مقروض ومضمون مقدار اور مورد ذمہ پر مطلب تمام ہے ورنہ پھر ماہرین اورنمائندوں کی کوئی دوسری راہ تلاش کرنا چاہئی. میری نظر میں جو سادہ راہ ہے وہ یہ ہے کہ سونے کو شاخص اورمعیار قرار دینا چاہئے جس کے لوگ بھی معتقد ہیں قیمتوں کے اختلاف کو اس سے معلوم کر سکتے ہیں یعنی دس سال پہلے اگر سوروپے سے دس مثقال سونا خریدا جاسکتا تھا اورمہر بھی سو روپے تھا تو آج زوجہ اسی مقدار میں نقد سکہ رائج الوقت (روپی)کی طلبگار ہے کہ جتنے روپے سے سونے کی وہ مقدار (دس مثقال) خریدی جا سکتی ہی.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org