Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ہبہ کے احکام

ہبہ کے احکام سوال ٧٣١. اگر کوئی باپ اپنا پورا مال اپنے دو بیٹوں کو ہبہ کر دے اور ان میں سے کوئی ایک بیٹا غائب ہو اور موجود بیٹا اور غائب بیٹے کی ماں غائب بیٹے کی نیابت میں فضولتاً لے لیں اور غائب بیٹے کی اجازت سے پہلے باپ انتقال کر جائے اور اس کے بعدوہ لینے کے لئے اجازت دے تو کیا یہ ہبہ صحیح ہے؟
جواب: سوال میں جو فرض کیا گیا ہے کہ غائب کی نسبت ہبہ باطل ہے چونکہ اس کا لے لینا اس کے باپ کی زندگی کے زمانہ میں نہیں ہوا ہے.

سوال ٧٣٢. اگر کوئی شخص کسی ملکِ کو اپنی بیوی کے قبالہ میں مہر کے بطور دیدے اور کئی سال گزر جانے کے بعد کہے میں اس کام سے پشیمان ہوں تو کیا اس کی پشیمانی کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں؟
جواب: اگرمال کو اپنی بیوی کا مہریہ قرار دیا ہے تو واپس لینے کا حق نہیں رکھتا لیکن اگر خود اپنی بیوی کو بخشا ہے تو اگر بطور رحم نہ ہو تو جب تک عین باقی ہے واپسی کا حق رکھتا ہے.

سوال ٧٣٣. ایک عورت کا شوہر عقد ازدواج کے تھوڑے عرصے بعد اسے طلاق دے دیتا ہے عقد کے زمانے میں وہ اپنی بیوی کو کچھ تحائف دیتا ہے کیا وہ ان تحائف کو واپس لینے کا مطالبہ کر سکتا ہے یا نہیں؟اوراگر اس نے ایسا مطالبہ کیا تو لڑکی کا باپ، نصف مہر کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: چونکہ عقد کے زمانے میں بیوی کو دیئے گئے تحائف بظاہر زوجہ کو ہبہ کیئے گئے تھے اور شوہر کا زوجہ کو ہبہ کرنا یا اس کے برعکس(بیوی کا شوہر کوہبہ کرنا)رحم کو ہبہ کرنے کے حکم میں آتا ہے اور قابل واپسی نہیں، خواہ طلاق سے پہلے مطالبہ کرے یا بعد از طلاق.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org