دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اگر شدت عزاداري کي وجہ سے کسي عزادار سے کوئي جذباتي حرکت سرزد ہوتي ہے تو ہميں نہيں چاہئے کہ اس پر اعتراضات کي بوچھاڑ کر ديں.
چہلم سنہ 1429 ھجری پر آپ کے بياناتاگر شدت عزاداري کي وجہ سے کسي عزادار سے کوئي جذباتي حرکت سرزد ہوتي ہے تو ہميں نہيں چاہئے کہ اس پر اعتراضات کي بوچھاڑ کر ديں.
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
اگر چہلم کے دن حضرت اباعبداللہ (سلام اللہ عليہ) کے حرم کي زيارت نہيں کر سکتے تو آپ کي مأثورہ زيارت پڑھ کر، آپ کي زيارت کر سکتے ہيں.
يہ زيارت حضرت امام صادق (صلوات اللہ و سلامہ عليہ) سے منقول ہے. اربعين کي زيارت ميں يوں آيا ہے آپ فرماتے ہيں: سورج کے طلوع ہونے کے کچھ دير بعد حضرت امام حسين (عليہ السلام) کي يہ زيارت پڑھي جائے، اس ميں کيا راز پوشيدہ ہو سکتا ہے؟ اس کا ہميں کچھ علم نہيں ہے؛
ايک احتمال يہ ہے کہ يہ حکم ايسے زمانے ميں ديا گيا ہے جس کے ذريعہ سے يہ بتانا چاہتے تھے کہ حضرت امام حسين (عليہ السلام) کے شيعہ بھي ہيں جو چہلم کے دن آپ کي زيارت کرنے کے لئے آتے ہيں، کيونکہ جب سورج طلوع ہو چکا ہو گا تو دوسرے لوگ يہ ديکھ سکيں گے کہ کچھ لوگ حضرت امام حسين (عليہ السلام) کي زيارت کے لئے آئے ہيں.
دوسرا احتمال يہ ہے کہ، زيارت کے لئے آئے ہوئے، حضرت امام حسين (سلام اللہ عليہ) کي اہل بيت، جابر بن عبداللہ انصاري اور عطيہ کے ساتھ، ہمدردي کريں اور ان کي آہ و بکاء ميں شريک ہو جائيں. سابقہ بزرگان کي نظر ميں مختلف زيارتناموں کے سلسلے ميں اس قسم کي تحليليں ملتي ہيں.
آپ مفاتيح الجنان کو اٹھا کر ديکھئے، اٹھائيس صفر کے دن حضرت ختمي مرتبت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي زيارت کے بارے ميں شيخ مفيد (قدس سرہ) جو سيد مرتضي کے استاد اور شيخ الطائفہ کے استاد کے استاد ہيں فرماتے ہيں: بہتر يہي ہے کہ ايک قبر کي شبيہ بنائي جائے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت پيغمبر (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي قبر سمجھ کر آپ کي زيارت کي جائے،
يہ قبر کي شبيہ بنانا ايک ہنرمندانہ اور تمثيلي کام ہے، شيخ مفيد تقريباً گيارہ سو سال پہلے فرما رہے ہيں کہ يہ تمثيلي کام کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر حضرت پيغمبر (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي زيارت کي جائے. بعض اہل تحقيق کا کہنا ہے کہ يہ اس لئے بتايا گيا ہے کہ انسان کي توجہ ايک جگہ متمرکز رہے، يہ بھي ايک تحليل ہے. ليکن ايک تحليل يہ بھي ہے کہ شايد شيخ مفيد فرمانا چاہتے ہيں کہ اس قسم کي شبيہيں بنائي جائيں تا کہ ان تلخ دنوں کي ياد تازہ ہو جائے اور لوگوں کو عزاداري اور حضرت اباعبداللہ (سلام اللہ عليہ) کي بہتر شناخت پر راغب کيا جائے.
اسي طرح شبيہ خواني اور تعزيوں ميں جو تماثيل بنائي جاتي ہيں يا قم کے لوگوں کي طرح جو اونٹ اور اماري لاتے ہيں اور اب اواخر ميں اصفھان ميں بھي اہل ہنر اس قسم کے کام کرتے ہيں. يہ کام آگاہي دينے کے لئے ہيں جو انسان کو کربلا ميں پيش آنے والے حادثات کي ياد دلاتے ہيں. اس قسم کے کاموں کا احترام کيا جانا چاہئے اور ان ميں حضرت ولي عصر، حجت بن الحسن (عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف) کي رضايت شامل ہے کيونکہ ان سے ائمہ مظلوم اور اسي طرح مظلوم تشيع کي مدد ہوتي ہے.
اگر لوگ اس طرح خلوص اور جذبے کے ساتھ عزاداري نہ کرتے تو ان کو کبھي اپنے شہيدوں کے جنازے نہ اٹھانے پڑتے، شہيد دينے والے انہي عزاداروں ميں سے ہيں. تحريک اور انقلاب ميں بھي انہي لوگوں کا بڑا حصہ ہے؛ ہم تو يہاں پر بيٹھ کر ثقافتي کام کر رہے تھے اور [بہانے
جب شيخ مفيد کوئي عمل انجام ديتے ہيں تو يقيناً وہ کام مفيد ہوتا ہے اور اس کام ميں حضرت امام زمانہ (عج) کي عنايت بھي شامل ہوتي ہے يہاں تک کہ امام زمانہ (عج) نے وہ اشعار شيخ مفيد کي قبر پر لکھے ہيں. اس کا مطلب ہے کہ امام زمانہ (عج) کي رضايت شامل ہے. شايد شيخ مفيد ہميں سکھانا چاہتے ہيں کہ پوري تاريخ کي طول و عرض ميں اس تحريک کي حفاظت کي جائے اور ايسے کاموں کے ذريعہ اہل بيت (عليھم السلام) کي مظلوميت کو نماياں کرتے رہنا. حضرت امام حسين(ع)، حضرت امام علي(ع)اور باقي تمام ائمہ معصومين(ع) کي مظلوميت کو اجاگر کر کے دوسروں کے لئے واضح کرتے رہنا. آپ جب ديکھتے ہيں کہ حضرت زينب (عليھا سلام اللہ) اس اسارت کے حادثے ميں ايسا خطبہ ديتي ہيں تو يقيناً تعجب ہوتا ہوگا. ہم تو صرف ايک لفظ «اسارت» ہي سن ليتے ہيں، ليکن اس کي جزئيات کو سمجھنے سے عاجز ہيں، بالکل اسي طرح حضرت زينب (س) کي عرفاني منازل کو درک نہيں کر سکتے. يہ بات کہہ ديني تو بہت آسان ہے کہ ايک دن ميں کسي خاتون کے تمام بھائيوں کو شھيد کيا جاتا ہے، ان کا گلا کاٹ ديا جاتا ہے، آپ کے بچوں کو شھيد کيا جاتا ہے، آپ کے عزيزوں کي لاشوں کو پامال سم اسب کيا جاتا ہے اور پھر قيدي بنا کر کوفہ ميں لايا جاتا ہے جو کسي زمانے ميں آپ کے اقتدار کا شھر ہوتا تھا. آپ کو عبيداللہ کے پاس لايا جاتا ہے، جو يہ بکواس کرتا ہے کہ «من ھذہ المتکبرہ؟»، پھر يزيد کي محفل ميں لايا جاتا ہے اور شام کے بازاروں سے گزارا جاتا ہے جہاں پر لوگ تالياں بجا رہے ہوتے ہيں، ناچ ناچ کر بے حرمتي کرتے ہيں، ليکن پھر بھي آپ فرما رہي ہيں کہ «ما رايت الا جميلاً» يہ عرفان کا عروج ہے آپ کي جب حالت غير ہوتي ہے تو آپ اپنا سر اماري کے کونے پر پٹخ ديتي ہيں «فنطحت راسھا بمقدم المحمل.»
راوي کہتا ہے کہ ميں نے ديکھا حضرت زينت کي اماري کے کونے سے خون نيچے بہہ رہا ہے. اب ہم يہاں پر بيٹھ کر ہر چيز پر اعتراض کرنا شروع کر ديتے ہيں کہ يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ حضرت زينب(س) نے اپنا سر اماري پر پٹخ ديا ہو حالانکہ آپ تو صبر کا ستون تھيں! صبر کا مطلب ہي حضرت زينب(س) اور حضرت زينب(س) کا مطلب صبر ہے. اس گھرانہ ميں عطوفت اپنے عروج ميں ہے. عظيم ہستيوں کا صبر بھي عظيم ہوتا ہے اور عطوفت بھي کامل ہوتي ہے. جب حضرت زينب (سلام اللہ عليھا) نے اپنے بھائي کے سر کو اپني اماري کے قريب ديکھا اور ديکھا کہ وہ کمسن معصومہ بار بار اس سر کي طرف متوجہ ہو رہي ہے تو آپ عرض کرتي ہيں: «يا اخي! فاطمۃ الصغيرہ کلّمھا فقد کاد قلبھا...» اے ميرے بھيا! اگر مجھ سے بات نہيں کرني تو بيشک نہ کرو! ليکن اس کمسن بچي کے ساتھ ضرور بات کرو کيونکہ مجھے ڈر ہے کہيں اس بچي کي جان ہي نہ نکل جائے... آپ پر اتني تہمتيں لگائي گئيں تو اتني عطوفت کے ہوتے ہوئے اور اپنے بھائي سے بے پناہ محبت کي وجہ سے اپنا اختيار ہاتھ سے دے بيٹھتي ہيں يہاں تک کہ اپنا سر اماري کے کونے پر مار ديا. آپ جب يہ کام کرتي ہيں تو متوجہ نہيں ہيں کہ اپنا سر اماري پر پٹخ رہي ہيں، کيونکہ آپ کي تمام توجہ حضرت ابا عبداللہ الحسين(ع) کي طرف ہے بالکل اسي طرح جس طرح نماز کي حالت ميں حضرت اميرالمؤمنين (عليہ الصلوہ والسلام) کے پائے اقدس سے تير نکالا جاتا ہے اور آپ متوجہ نہيں ہوتے. اس کا مطلب يہ نہيں کہ سرے سے تير ہي نہيں نکالا، يا يہ کہ پاؤں زخمي ہي نہ ہوا ہو، زخم بھي ہوا ہے ليکن آپ کي توجہ کہيں دوسري جگہ معطوف ہے.
عزاداري کے دوران، اگر شدت عزاداري کي وجہ سے کسي عزادار سے کوئي جذباتي حرکت سرزد ہوتي ہے تو ہميں نہيں چاہئے کہ اس پر اعتراضات کي بوچھاڑ کر ديں.
اگر ہمارے جذبات ميں اتني شدت نہيں ہے، اگر ہمارے دل ميں حضرت اباعبداللہ(ع) کي محبت کم ہے، اگر عاشور کے دن بھي ہمارے سامنے بار بار ياحسين! پکارا جاتا ہے اور ہم ٹس سے مس نہيں ہوتے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم پکے شيعہ نہيں ہيں. دوسروں کو کيوں روکتے ہيں؟ اس کے عمل پر کيوں اعتراض کرتے ہيں؟ وہ شدت جذبات ميں چور ہے اور ماتم کرتا ہے، اور اس کے چہرے اور سينہ پر نيل پڑ رہے ہيں، يہ وہي روائتي عزاداري ہے جس کے بارے ميں امام خميني (سلام اللہ عليہ) نے فرمايا ہے کہ اس کو ہميشہ زندہ رکھنا چاہئے. عام طور پر ہمارے فقہاء تماثيل اور نمادوں کو مطلوب سمجھتے ہيں، اور يہ بھي وہي تمثيلي کام ہيں. ايسي عزاداري جو انسان کو متاثر کر سکے، ائمہ معصومين (عليھم السلام) کو پسند ہے اور اس کا ثواب ہے.
ہم نے کئي بار اس نکتے کو عرض کيا ہے کہ عمار کے والد نے تقيہ نہيں فرمايا تھا حالانکہ عين تقيہ کا مقام تھا ليکن آپ نے حضرت ختمي مرتبت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کو برا نہيں کہا اور اسي وجہ سے آپ کو بعد ميں شھيد بھي کر ديا گيا، ليکن رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے فرمايا: «اول من دخل الجنۃ» وہ سب سے پہلے جنت ميں داخل ہوں گے. اب کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر ديا ہے کہ عمار کے والد نے خودکشي کي تھي کيونکہ وہ تقيہ کر سکتا تھا، اس نے تقيہ کيوں نہ کيا؟ معترض کو جواب دينا چاہئے کہ آپ اس کي حضرت ختمي مرتبت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) سے محبت کا ادراک نہيں کر سکتے. ہم اور آپ اس کي رسول اللہ(ص) کے ساتھ محبت اور اس کے جذبات کي حد کو نہيں پہچان سکتے، وہ کچھ اس طرح اپنے جذبات ميں غرق ہو چکا ہے کہ اس کو کچھ نہيں معلوم کيا کر رہا ہے. حتي کہ اس کو يہ بھي معلوم نہيں ہے کہ کيا تقيہ بھي کيا جا سکتا ہے يا نہيں، وہ تو اس طرف بالکل متوجہ بھي نہيں. عزاداري بھي اگر اس حد تک پونہچ جائے تو وہاں پر بھي کوئي چيز دوسري چيز کے لئے شرط نہيں ہے. اگر تمام فرائض ہوں يا فرض کر ليتے ہيں کہ کوئي چيز حرام بھي ہو (جو ہم کہتے ہيں کہ حرام نہيں ہے) اب اگر صرف فرض بھي کر ليں تو ان جذبات اور احساسات کي وجہ سے يہ فرائض ساقط ہو جاتے ہيں اور اس کے ذمہ کچھ بھي نہيں رہتا.
ايک اور نکتے کي طرف بھي توجہ کرني چاہئے اور وہ يہ کہ ائمہ معصومين (عليھم السلام) کے بارے ميں اپني معرفت کو کامل کرنا چاہئے اور آپ حضرات کي شناخت حاصل کرني چاہئے اور آپ کے بارے ميں غلو بھي نہيں کرنا چاہئے. ہم نے ايک دن کہا تھا کہ حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کتاب اسفار پر اپنے حاشيہ ميں فرماتے ہيں: «حضرت اميرالمؤمنين (عليہ السلام) اور حضرت رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) مقام کمال تک پہونچنے ميں برابر ہيں اور ان ميں کوئي فرق نہيں ہے» يہ حضرت امام خميني کا کلام ہے، کوئي ہمارا نہيں جس پر اشکال کيا جائے. اگر حضرت علي (عليہ السلام) کو حضرت ختمي مرتبت(ص) سے پہلے اس دنيا ميں آنا ہوتا تو وہ پيغمبر بن جاتے اور اگر حضرت ختمي مرتبت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے بعد ميں آنا ہوتا تو وہ امام ہوتے. ديکھيے! جناب جابر ابن عبداللہ انصاري، حضرت پيغمبر(ص) کے زمانے ميں جب ابھي اسلامي معارف اتنے زيادہ بھي نہيں تھے، کيسي معرفت رکھتے ہيں!
اربعين کي زيارت کو ملاحظہ فرمائيے جس کو صاحب مفاتيح نے نيمہ رجب المرجب کے اعمال ميں ذکر فرمايا ہے، يہ زيارت جابر بن عبداللہ انصاري کي زيارت سے بہت ملتي ہے. وہاں پر جابر ۱۳۵۰ يا ۱۳۶۰ سال پہلے فرما رہے ہيں: «اشھد انک تسمع کلامي و ترد سلامي و تري مقامي» آپ فرماتے ہيں کہ : «اے امام! ميں اس چيز کي گواہي ديتا ہوں کہ آپ ميري بات کو سن رہے ہيں اور ميرے سلام کا جواب ضرور ديتے ہيں اور مجھے ديکھ رہے ہيں» البتہ ممکن ہے ہم ميں سے بہت لوگ ايسے ہوں جو يہ باتيں زبان پر تو لاتے ہيں ليکن ان کے لئے ان باتوں پر يقين کرنا مشکل ہو، ليکن جابر اس دن يہ کہہ رہے ہيں : «اشھد انک تسمع کلامي و ترد سلامي و تري مقامي». ہر چيز کو تو فضا اور کيمونيکيشن کے زمانے کي نگاہ سے نہيں ديکھنا چاہئے.
ايک دن ايک صاحب جن کي اللہ تعالي مغفرت کرے، ہمارے بہت مخالف تھے اور [ہمارے خلاف] کچھ باتيں کي تھيں، اور اس ميں ان کا کوئي قصور نہيں تھا کيونکہ وہ ہمارے بارے ميں غلط فہمي ميں مبتلا تھے اور اسي کي بنياد پر ہم سے مخالفت بھي کيا کرتے تھے، ايک دن حج کے دوران صحراي عرفات ميں ہم سے ملے اور بہت اظہار ندامت کي، موصوف ائمہ معصومين (سلام اللہ عليھم اجمعين) سے بہت ارادت رکھتے تھے. [کچھ عرصہ بعد] ہم نے موصوف کو حضرت امام رضا (عليہ السلام) کے حرم ميں اس شبستان ميں ديکھا جو بالکل ضريح کے مقابل ہے، وہ صاحب وہاں کھڑے ہو کر زيارت پڑھ رہے تھے. ہم نے بڑھ کر ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور عرض کي: التماس دعا اور يہ جو ہم نے آپ کي زيارت کو منقطع کيا اس کے لئے معذرت خواہ ہيں؛ ليکن عرض يہ ہے کہ آپ کي شخصيت بہت موجہ ہے اور آپ لوگوں کے درميان بہت محبوب ہيں اور آپ کا عمل دوسروں کے لئے نمونہ ہے، آپ کو چاہئے کہ ضريح کے قريب جا کر کھڑے ہو جائيں اور زيارت نامہ وہيں پر لوگوں کے ہجوم ميں ہي پڑھيں. انھوں نے فرمايا: کيا ميں وہاں لوگوں کے درميان اس بھيڑ ميں زيارت نامہ پڑھوں؟ ہم نے عرض کي: جي ہاں! شھيد اول اپني کتاب «دروس» ميں فرماتے ہيں «کلما قرب کان افضل» جتنا انسان حرم کے قريب تر ہو گا اس کا ثواب زيادہ ملے گا.
کبھي بھي ايسا نہيں ہوا ہے کہ ہم کہيں پر زيارت کے لئے گئے ہوں اور کسي خلوت جگہ کو ڈھونڈ کر بيٹھ کر زيارت پڑھي ہو؛ پھر يہ لوگ کون ہيں جو لائن ميں کھڑے ہوتے ہيں؟ نماز جماعت ميں مستحب ہے کہ لوگ ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں. ہم کو بھي چاہئے کہ عوام کي طرح زيارت کريں. انہي کي طرح اپني محبت اور ارادت کا اظہار کريں، اگر ہم خود ايسا نہيں کرتے تو کم از کم ان کي برائي تو نہ کريں، ان پر تو اعتراض نہ کريں. عزاداري يہي ہے کہ اپنے ماتھے اور چھاتي پر ماتم کريں، فرياد کريں، نالہ اور آہ و بکا کريں، چاہے اس کے لئے کتني ہي قيمت چکاني پڑے. عزاداري کے سلسلے ميں جب انسان اپنے جذبات کے غلبے ميں آ جائے تو اس کو روکنا نہيں چاہئے؛ کيونکہ يہ مقام واجب اور حرام کا مقام نہيں ہے بلکہ يہاں پر تو وہ جانے اور حضرت ابا عبداللہ الحسين (عليہ السلام) جانيں، وہ جانے اور حضرت رسول اکرم(ص) جانيں، وہ جانے اور حضرت امام رضا (عليہ السلام) جانيں، وہ جانے اور عزاداري جانے. اگر لوگ اس طرح خلوص اور جذبے کے ساتھ عزاداري نہ کرتے تو ان کو کبھي اپنے شہيدوں کے جنازے نہ اٹھانے پڑتے، شہيد دينے والے انہي عزاداروں ميں سے ہيں. تحريک اور انقلاب ميں بھي انہي لوگوں کا بڑا حصہ ہے؛ ہم تو يہاں پر بيٹھ کر ثقافتي کام کر رہے تھے اور [بہانے لا رہے تھے کہ] ثقافتي کام، جسماني کام پر مقدم ہے. نہ تو ہم محاذ جنگ پر گئے اور نہ ہي جنگ اور تحريک سے کوئي تعلق تھا اور اس کے لئے کوئي خاص کام بھي نہيں کيا ہے، صرف انتظار کر رہے تھے کہ کب يہ تحريک اور يہ انقلاب کامياب ہوتا ہے تا کہ ہم اپنے آپ کو اس کے قريب لا کر اس بچھے ہوئے دسترخوان پر بيٹھيں اور اس کي نعمتوں سے استفادہ کريں. شايد اس ميں کوئي حرج نہ ہو ليکن ہم منورالفکر بن کر دوسروں پر اعتراض تو نہ کريں.
ہم دوبارہ اربعين حسيني کي مناسبت سے آپ کو اور تمام انسانيت کو اور خاندان عصمت و طہارت کے محبين کي خدمت ميں تعزيت پيش کرتے ہيں اور اميد ہے کہ آزادي اور آزادگي کا احترام کريں گے اور حقيقي معنوں ميں عزاداري کريں گے.
والسلام عليکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.تاريخ: 2008/03/16 ويزيٹس: 7746