Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بيانات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت امام حسین (ع) نے ایسا جھاد کیا ہے جس کی پوری انسانیت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.
دس محرم سنہ ١٤٢٢ ھجری کی مجلس میں آپ کا مصائب پڑھنا حضرت امام حسین (ع) نے ایسا جھاد کیا ہے جس کی پوری انسانیت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.
«السلام علیک یا ابا عبداللہ، السلام علیک یا ابا عبداللہ، السلام علیک یا ابا عبداللہ، و رحمة اللہ و برکاتہ، السلام علیک یا ابا عبداللہ و علی الارواح التی حلت بفنائک، علیک منی سلام اللہ، ابداً ما بقیت و بقی اللیل و النھار، و لا جعلہ اللہ آخر العھد منی لزیارتکم، السلام علی الحسین و علی علی بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین، ان الحسین مصباح الھدی و سفینة النجاة»
عاشور کا دن، غم اور عزا کا دن ہے. حضرت حجت ابن الحسن، امام زمان عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت اقدس میں تعزیت پیش کرنے کا دن ہے. «عظم اللہ اجورنا و اجورکم بمصیبة جدکم الحسین علیہ السلام، یا ابا القاسم یا رسول اللہ عظم اللہ اجورنا و اجورکم بمصیبة سبتکم الحسین علیہ السلام، یا امیرالمؤمنین یا علی ابن ابی طالب عظم اللہ اجورنا و اجورکم بمصیبة ولدکم الحسین علیہ السلام، الصلوة و السلام علیک یا فاطمة الزھراء سیدة نساء العالمین عظم اللہ اجورنا و اجورکن بمصیبة ولدکِ الحسین علیہ السلام، عظم اللہ اجورکم و اجورنا یا اھل العزاء و المصیبة».
آج، امام حسین علیہ السلام نے تمام نیک اعمال کی حقیقت اور ان کی اصالت پر عمل کیا. کوئی ایسا نیک عمل نہیں پایا جائے گا جس کی حقیقت اور اس کی اصلی اور واقعی صورت پر امام حسین علیہ السلام نے عمل نہ کیا ہو.
آج، حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایسا جھاد کیا ہے جس کی انسانیت کی تمام تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی. یعنی امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام، اور ان کے دو چھوٹے صحابی یعنی حضرت علی اصغر اور تیرہ سال کے ایک نوجوان اور ان کے کچھ وفادار صحابی جیسے حبیب اور مسلم بن عوسجہ اور بریر، دسیوں ہزار دشمنوں کے مقابلے میں.
امام حسین علیہ السلام، جنگی ساز و سامان اور حکمت عملی کے لحاظ سے کچھ نہیں رکھتے تھے لیکن مقابلہ میں دشمن کے پاس تمام جنگ میں درکار طاقتیں موجود تھیں. حضرت امام حسین علیہ السلام نے نویں کے دن، میمنہ اور میسرہ کو مقرر فرمایا اور حضرت ابوالفضل العباس کو اپنی فوج کے علمدار مقرر فرمایا. آج کے ایک حملے میں امام حسین علیہ السلام کے بہت سے صحابی شہید ہو گئے. پوری انسانیت کی تاریخ میں اس طرح کے مقابلے کی کہیں بھی مثال نہیں ملتی. ایسا مقابلہ، اتنے کم صحابی اور اتنی زیادہ دشمن کی فوج سے. امام حسین علیہ السلام کے صحابی سب پیاسے تھے. ایسے فدائی جن کو معلوم تھا کہ ان کی شہادت کے بعد ان کے گھروالوں کو قیدی بنا کر لے جایا جائے گا اور گلی کوچوں میں ان کی تذلیل کی جائے گی. ایسے فداکار صحابی جن کو معلوم تھا کہ ان کی شھادت کے بعد حتی ان کو دفن کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی. ایسا مقابلہ پوری تاریخ میں بے مثال ہے. یہ فداکاری اور ایثار کی حقیقت ہے. یہ خدا کی راہ میں جہاد اور دفاع کرنے کا اصلی راستہ ہے. وہ نماز جو حضرت امام حسیں علیہ السلام نے عاشور کی ظہر کو نماز خوف کی صورت میں ادا کی، کچھ صحابی امام حسین علیہ السلام کے آگے کھڑے ہو گئے اور تیر کھا کر شہید ہو گئے. وہ لوگ جو باقی رہ گئے تھے وہ بھی ایک ایک کر کے میدان میں آتے رہے اور شہید ہو گئے.
آج امام حسین نے تمام اعمال کا اصلی جوہر واضح کر کے ان کو بجا لایا. حج میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ہوتی ہے، امام حسین کا صفا اہل بیت علیہم السلام کے خیام اور مروہ مقتل تھا. اور ان کے درمیان والے فاصلے کو طی کرنا، سعی کرنا تھا. بنی ہاشم میں سے کوئی بھی میدان میں شہید ہوتا تو امام حسین علیہ السلام آتے اور اس کو اٹھا کر واپس ایک خاص خیمہ میں لے جاتے. اگر (حج میں) صفا اور مروہ کے درمیان صرف سات مرتبہ سعی کرنا ہوتی ہے لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنے صفا اور مروہ کے درمیان بہت زیادہ سعی کی ہے. اور حقیقی سعی کی ہے. آج امام حسین علیہ السلام نے قربانی کی حقیقت کو بجا لایا ہے. قربانی (والے حیوان) کی کم سے کم عمر چھ ماہ ہونی چاہئے. امام حسین علیہ السلام نے اپنے چھ مہینے کے لال کی قربانی دی ہے. آج امام حسین علیہ السلام نے میت کی ایسی تشییع اور تربیع کی ہے اور ایسی قبر کھودی ہے کہ تاریخ نے کبھی ایسی مثال نہیں دیکھی ہوگی. تشییع اور تربیع کی حقیقت بھی یہی ہے. آج امام حسین علیہ السلام نے جنازوں کی تشییع کی ہے. بعض کی تربیع بھی کی ہے. اکثر جنازوں کی تشییع بھی کی ہے اور تربیع بھی. لیکن ایک ایسا جنازہ ہے جس کی تشییع تو کی ہے لیکن اس کی تربیع نہیں کی. تربیع کا مطلب ہے کہ جنازے کی دائیں جانب سے آتے ہیں اور پھر بائیں جانب اور بعد میں اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں اور میت کے چاروں طرف کو کاندھا دینے کو تربیع کہا جاتا ہے. یہ عمل مستحب ہے. صرف جنازے کے پیچھے چلنے کو تشییع کہا جاتا ہے. آج امام حسین علیہ السلام نے ایسی تشییع کی ہے کہ بنی نوع انساں کو اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی. کبھی بھی انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی تاریخ میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا ہے. ایک ایسے جنازے کو امام حسین علیہ السلام تشییع کر رہے ہیں جو ٹکرے ٹکرے ہو چکا ہے. امام علیہ السلام اکیلے اس جنازے کو نہیں اٹھا سکتے. وہ جنازہ، اپنے جوان بیٹے علی اکبر کا جنازہ ہے. حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا. اپنے والد کا ہمنام اور حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شبیہ تھا. یہ جوان میدان جنگ کی طرف جاتے ہوئے اپنے والد کو دلداری دیتا ہے اور یہ بہت عجیب ہے.
امام علیہ السلام کربلا کے سفر میں ایک مقام بر سوجاتے ہیں. اور جب جاگتے ہیں تو فرماتے ہیں «انا للہ و انا الیہ راجعون» حضرت علی اکبر نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ امام فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ یہ قافلہ موت کی طرف جارہا ہے اور موت ان کے استقبال کے لئے آگے آ رہی ہے. حضرت علی اکبر پوچھتے ہیں: «اَ وَ لَسنا علی الحق؟» کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام فرماتے ہیں: کیوں نہیں، ہم حق پر ہیں. تو حضرت علی اکبر عرض کرتے ہیں: «اذاً لا نبالی بالموت».
اگر خدا کے لئے ہے تو میری پیشانی کو تلوار سے دو ٹکڑے ہونے دو.
اگر خدا کے لئے ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ میرے آخری لمحات میں، آپ میرے پاس آئیں اور آپ کی حسرت ہو کہ میں آپ کا جوان بیٹا آپ سے بات کروں، آپ میرے ہونٹوں اور زبان سے خون کو صاف کر رہے ہوں لیکن مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہ ہو.
اے میرے عظیم والد! اگر ہم حق پر ہیں تو ہمارے جسموں کو اتنا ٹکڑے ٹکڑے ہونے دو کہ آپ اکیلے میرے جسم کو اٹھا نہ سکیں.
حضرت امام حسین علیہ السلام بنی ہاشم کے تمام جنازوں کو اکیلے اٹھا کر لاتے تھے. یعنی ان کی تشییع اور تربیع بھی کرتے تھے. لیکن حضرت علی اکبر کے جسم اطہر کو اکیلا نہ اٹھا سکے. «فقطعوہ بسیوفھم اِرباً اِربا» کیونکہ اگر امام حسین علیہ السلام دائیں جانب کو اٹھاتے تو بائیں جانب زمین پر رہ جاتی. اگر سینے کو اٹھاتے تو سر زمین پر رہ جاتا. اگر پاؤں کو اٹھاتے تو دوسرا پورا بدن زمین پر رہ جاتا. امام حسین علیہ السلام اکیلے اس جنازے کو نہ اٹھا سکے.
حضرت علی اکبر بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں اور بنی ہاشم کے جوان ابھی باقی ہیں. «السلام علی اول قتیل من نسل خیر سلیم».
علی اکبر بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں. امام نے بلند آواز میں کہا:
(((حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے---میرے ساتھ آپ بھی بولیں. آج مصیبت کا دن ہے. امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں حرام چیزوں کے علاوہ سب کچھ مستحب ہے. امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں، میں اور توں کی گنجائش نہیں ہے. آپ سب اہل فضل لوگ ہیں. آپ سب لوگ عزاداری منانے والے ہیں. آپ سب میرا ساتھ دیں. مجھے مجلس پڑھنا نہیں آتا. اے میرے آقا! میرے مولا! آپ نے مجھے مجلس بڑھنا جو نہیں سکھایا. لیکن امام علیہ السلام نے پکارا ہو گا. اے روحانی اور علماء اور بزرگوں کا مجمع، اے شیعو! )))
«یا فطیان آل بنی ہاشم احملوا جسد اخیکم الی فستاة» اے بنی ہاشم کے جوانو! آؤ اور علی اکبر کے جنازے کو خیمے میں لے جاؤ. امام خود اکیلے نہیں اٹھا سکتے. یہاں امام حسین علیہ السلام نے جنازے کی تشییع کی. لیکن اس کی تربیع نہیں کر سکے. جنازے کو کاندھا نہ دے سکے. ایک اور جنازہ بھی ہے جو اتنا ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے کہ اس کو خیمے میں نہیں لایا گیا. اس کی وجہ کیا تھی؟ ہمیں نہیں معلوم. امام حسین علیہ السلام کے جنازے کے علاوہ دو ایسے جنازے تھے جن کو بہت پامال کیا گیا. ایک حضرت علی اکبر کا جنازہ اور دوسرا قمر بنی ہاشم حضرت عباس علیہما السلام کا جنازہ. صرف اتنا ہی نہیں کہ حضرت عباس علیہ السلام کے دونوں بازو کٹ چکے تھے اور نہ صرف اس کمینے نے حضرت عباس پر زبان کے زخم لگانا شروع کر دیے، جو تلواز کے زخموں سے زیادہ دردناک تھے. وہ کہنے لگا: اے علی کے بیٹے! آپ کی طاقت کہاں گئی؟ آپ کی شجاعت کہاں کھو گئی؟ آپ تھے جو اپنا زور دکھایا کرتے تھے! آپ امام حسین علیہ السلام کے علمدار بنے ہوئے ہو ! حضرت فرماتے ہیں: کہ جب میرے ہاتھ موجود تھے، اس وقت یہ باتیں کرنے کے لئے کیوں نہیں آیا؟ «لا الہ الا اللہ» اے ایسے شخص کے جب تک آپ زندہ تھے اہل بیت علیھم السلام کے دلوں کو سکون تھا. اے میرے مولا! آپ کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام کے سب غم جھٹ جاتے تھے. «یا کاشف الکرب عن وجہ الحسین، اکشف کروبنا بحق اخیک الحسین». اے مردو! غیرتمندو! آزاد مردو! جوانو! اے علما اور اے دانشورو! جانتے ہو کہ اس کمینہ نے قمر بنی ہاشم سے کیا کہا تھا. (اس نے کہا) اے ابوالفضل! آپ کے تو ہاتھ نہیں ہیں لیکن میرے ہاتھ ہیں. پھر کسی بھاری چیز سے حضرت قمر بنی ہاشم کے سر پر ... . حضرت عباس گھوڑے کی زین سے زمین پر تشریف لے آئے. «یا اخا! ادرک اخاک». حضرت امام حسین علیہ السلام، حضرت عباس کی طرف چل پڑے، لیکن پہنچنے سے پہلے، زمین پر جھک کر کوئی چیز زمین سے اٹھا کر اس کو چوما. چند قدم اور بھی آگے کسی چیز کو زمین سے اٹھا کر چوما. لوگوں نے دقت سے دیکھا. کیا یہاں قرآن کے کاغذ بکھرے پڑے تھے جو امام حسین اٹھا کر انھیں چوم رہے تھے. کون سی ایسی قیمتی چیز تھی جس کو امام حسین علیہ السلام جنگ کی اس گرمی اور گہما گہمی میں بھی چوم رہے ہیں. امام حسین علیہ السلام، فتوت، جوانمردی، استقامت اور آزادمردی کو چوم رہے تھے. حضرت عباس کے دونوں ہاتھوں کو بہت چوما. یعنی کہ جوانمردی، فتوت اور آقائی کو چوما. حضرت کے سرہانے پہنچے. کیا حضرت عباس کے جسم میں اتنی رمق باقی تھی کہ اپنے بھائی کے ساتھ بات کر سکیں. یہ وہ واحد جنازہ تھا جس کو امام خیموں میں نہیں لے آئے. وہیں علقمہ کے کنارے چھوڑ دیا تھا. لیکن کیوں؟ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اب امام حسین علیہ السلام کے پاس اور کوئی باقی نہ بچا تھا جس کو پکاریں اور خیمے میں لے جانے کے لئے کہیں. ممکن ہے اس کی ایک اور وجہ ہو اور وہ یہ کہ حضرت عباس علمدار نے زبان حال یا زبان قال سے عرض کی ہو کہ ننھی سکینہ مجھے نہ دیکھے کیونکہ میں بہت شرمسار ہوں. میں تو اس کے لئے پانی لانے گیا تھا لیکن اب میرے جسم کو ٹکڑوں میں بٹا ہوا اس کے پاس لے جایا جائے. ایک اور (تیسری) وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عباس کا جسم اتنا پامال ہو چکا تھا کہ دوسروں کی مدد سے بھی اسے نہ لے جایا سکتا تھا. اسی لئے آج بھی حضرت عباس علیہ السلام کی قبر بہت چھوٹی ہے یعنی کہ ٹکڑوں کو جمع کر کے انھیں دفن کیا گیا. حالانکہ حضرت عباس علمدار بنی ہاشم میں سے بہت بلند قامت ہونے کے لحاظ سے مشہور تھے. وہ تو قمر بنی ہاشم (یعنی بنی ہاشم کے چاند) تھے. بنی ہاشم میں سے اس جنازے کو حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ تشییع کی اور نہ تربیع.
آج حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایک قبر بھی کھودی، ایک قبر بنائی، کیونکہ قبر کھودنا ایک پسندیدہ عمل ہے. اپنے ہاتھ سے ایک جنازے کو قبر میں رکھا. اس امید سے کہ بعد میں ممکن ہے یہ جنازہ پامال ہونے سے بچ جائے اور اس قبر کو دوبارہ کھود کر جنازہ نہ نکالا جائے گا. «یا حجة ابن الحسن ! اگر آج عاشور کا دن اور مصیبت عظمی کا دن نہ ہوتا تو یہ مصائب نہ پڑھتا» جب حضرت علی اصغر، امام حسین علیہ السلام، کے ہاتھوں پر شہید ہو گئے تو جنازے کو اٹھا کر خیموں کے کنارے پر لے آئے اور کہا گیا ہے کہ چھوٹی سی قبر بنائی تھی.
لا حول و لا قوة الا باللہ العلی العظیم. حسبنا اللہ و نعم الوکیل، نعم المولی و نعم النصیر.

تاريخ: 2005/02/17
ويزيٹس: 8378





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org