دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: کسی کے نظریہ اور سوچ کا قتل، اس کی جان لینے سے زیادہ برا ہے
حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی: قیدیوں کے انسانی حقوق ان سے چھیننا شریعت کے خلاف اور حرام ہےکسی کے نظریہ اور سوچ کا قتل، اس کی جان لینے سے زیادہ برا ہے
حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نے اپنے فقہ کے درس خارج میں ضمان کی بحث میں، ”کسی شخص کی طرف سے دوسرے فرد کی کسی چیز کو تلف کرنے پر ضامن ہونے“ کے بارے میں موجود عقلی اصول بیان فرماتے ہوئے فرمایا: ”شریعت کے لحاظ سے بھی ”لا ضرر کا قاعدہ“ یہی فرما رہا ہے، یعنی کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے فرد کو نقصان پہنچائے، چاہے وہ نقصان اور زیان کسی دوسرے انسان کا ہو یا کسی حیوان کا یا حتی کہ ماحول کا۔“ آپ نے فرمایا: ”قاعدہ لا ضرر کو اگر عام لیا جائے اور دیگر قواعد اس بات کی طرف متوجہ ہیں کہ ہر قسم کا نقصان اور زیان ضمانت کا موجب ہے اور اس سلسلے میں ان نقصان کا ازالہ اور خسارت کو جبران کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ”جبراً گواہی لینے“ کے بارے میں ملتا ہے کہ اگر دو عادل افراد کسی کے خلاف گواہی دیتے ہیں کہ فلان شخص نے چوری کی ہے اور قاضی بھی ان کی گواہی پر اعتماد کرتے ہوئے، اس شخص کا ہاتھ کاٹ دے۔ اب اگر یہ دو افراد آ کر کہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی یا ہم نے جھوٹ بولا تھا، تو یہاں پر وہ دونوں جو خسارت پہنچی ہے اس کے ضامن ہیں، کیونکہ اس شخص کے نقصان کا اتلاف کا باعث بنے ہیں۔“ حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نے مزید فرمایا: ”یہی بحث اس شخص کے بارے میں بھی جاری ہے جو شخص تمام شرعی اور قانونی موازین کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کو قید اور زندان کی سزا ملی ہو، یہاں پر اگر چہ اس کو قید میں رکھنا جائز ہو گا، لیکن اگر اس کے باقی انسانی حقوق اس فرد سے چھینے جائیں تو ہم ضامن ہوں گے۔ اگر اس کی ذہنی صلاحیتیوں کو دبا دیا جائے تو ہم ضامن ہوں گے، اگر یہ فرد کسی صنعت میں مہارت رکھتا ہے تو اس صنعت کے اوزار و آلات اس کو دینے چاہئیں، اگر اہل فکر اور سوچ کا مالک ہے تو اس کو فکر و سوچ کے اوزار ملنے چاہئیں۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ کہا جائے اب تو یہ شخص قیدی ہے تو اس کو مطالعہ کا حق حاصل نہیں ہے، کام کرنے اور کسی دوسری فعالیت کا حق نہیں رکھتا، ایسا کرنا شریعت کی خلاف ورزی ہے اور قاعدہ لاضرر اور قاعدہ ایذاء اور قاعدہ من اتلف مال الغیر اور اسی طرح عقلاء کی بنا کی رو سے ضامن ہوں گے اور اس طرح کا رویہ رکھنا شریعت کی خلاف ورزی ہو گی۔“ مرجع عالیقدر نے مزید فرمایا: ”ان حقوق میں سے کسی ایک حق سے اگر اس فرد کو محروم کیا جائے تو شریعت کے خلاف اور حرام ہے اور ضمانت کا موجب بنے گا اور قیامت کے دن اس کا جواب دینا پڑے گا۔ ہم نے یہ تمام باتیں عوام سے بتائی ہیں اور اگر ہم خود اس کے بر خلاف عمل کریں تو خسر الدنیا و الآخرہ ہوں گے۔“ آخر میں آپ نے فرمایا کہ: ”اگر کسی کے قتل کا باعث بنے ہوں، تو اللہ تعالی سے پناہ مانگنی چاہئے۔ اللہ نہ کرے کہ عوام کے قاتل بن جائیں، اللہ نہ کرنے کہ عوام کی سوچوں کے قاتل بن جائیں جو ان کی جسمانی قتل سے بھی زیادہ برا ہے، اور اسی طرح ہے عوام کی سوچوں کو نقصان پہنچانا، یعنی جھوٹ اور فریب کے ساتھ، ظالموں کے ظلم و ستم سے ان کی توجہ ہٹائی جائے۔ اللہ تعالی سے پناہ مانگنی چاہئے کیونکہ قیامت کے دن، حساب کتاب بہت دقیق اور سختی سے ناپا تولا جائے گا، خاص طور پر حق الناس کے بارے میں، جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة خَيْراً يَرَهُ*وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة شَرّاً يَرَهُ ۔“ تاریخ: 1390/2/18 تاريخ: 2011/05/08 ويزيٹس: 10526