Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بيانات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: امام خمینی کے فقہی نظریات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جو آپ کے سیاسی نظریات کو دی جاتی ہے.
درس خارج کے اختتام پر حضرت امام خمینی (رح) کی برسی کے موقع پر ارشادات امام خمینی کے فقہی نظریات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جو آپ کے سیاسی نظریات کو دی جاتی ہے.

بسمہ تعالی
آج آپس میں کچھ بات چیت کرنے کے حوالے سے، کچھ قرآن کریم، کچھ ہماری فقہ، کچھ اپنے فرائض کے بارے میں اور کچھ قرآن سے اپنے رابطے کے بارے میں بعض مطالب آپ حضرات کی خدمت میں عرض کریں گے. اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے.
نمبر ایک) انبیاء کے آنے کا مقصد کیا تھا؟ قرآن کی کیا خصوصیات ہیں؟ کیونکہ ہم جو اپنے آپ کو انبیاء کا جانشیں سمجھتے ہیں، کبھی اس دنیا سے چلے جائیں گے اور ممکن ہے آنے والے لوگ ہمارے بارے میں کہیں گے کہ یہ پیامبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی گدی پر تشریف فرما تھا، آج حجة الاسلام چل بسا ہے، آج حضرت پیغمبر کا نائب اس دنیا سے اٹھ گیا ہے. اور ہمارے لئے اس قسم کے عناوین کا استعمال کریں گے. اب دیکھنا یہ ہے کہ انبیاء کیا کرتے تھے اور ہم جو ان کے جگہ پر بیٹھے ہیں کیا کر رہے ہیں.

قرآن کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ آب سب کو معلوم ہو گا کہ سب انبیاء کرام کا اصلی مقصد یہی تھا کہ تمام لوگ صرف اپنے حصے پر راضی اور قانع ہو جائیں. اور کہیں بھی عدالت کو اجراء کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے. عدالت اور قسط میں کیا فرق ہے جو قسط قرآن کی سورة حدید میں اس طرح ذکر ہوئی ہے: «و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط» یعنی کہ تمام لوگ اپنے حصے سے راضی ہو جائیں، اس قسط اور عدل میں یہ فرق ہے کہ عدالت جاری کرنے کے قابل ہے یعنی وہ شخص جو عدالت کا پابند نہ ہو اس کو عدالت کا پابند کیا جا سکتا ہے. لیکن قسط انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے. خود انسان اپنے حصے سے راضی ہو جاتا ہے اور اس طرح کہیں ظلم نہیں ہو گا. اور کسی کا حق ضائع نہیں ہو گا. انبیاء کے آنے اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد قسط کو بحال کرنا ہے. ہم اگر چاہتے ہیں کہ اس راستے پر قدم رکھیں تو ایسا طریقہ اپنانا ہو گا کہ لوگ اپنے اندرونی ضمیر کی وجہ سے اپنے حق پر راضی رہیں. ہمارا عمل اور ہماری کلام اس طرح ہونی چاہئے کہ لوگ واقعی طور پر اپنے حصے (حق) پر راضی ہو جائیں. لیکن اگر خدا نخواستہ یہ کام نہ کر سکے، تو نہ صرف لوگ اپنے ضمیر سے اپنے حصے پر راضی نہ ہونگے بلکہ کہیں گے کہ اب جبکہ وہ برے ہیں تو ہمارے برے ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے. اس صورت میں ہمارے حال پر وای ہونی چاہیے. اگر ایک فرد بھی میرے برے اعمال اور میری بری رفتار کی وجہ سے دین سے بدظن ہو جائے، یا (خدا نخواستہ) قرآن مجید سے بد ظن ہو جائے، یا امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی حاکمیت سے بد ظن ہو جائے، ائمہ معصومین علیھم السلام سے بد ظن اور بد گمان ہو جائے، اسلام سے بدظن ہو جائے، تو اس صورت میں خدا ہمیں کتنا عذاب کرے گا؟ جب تک وہ شخص گناہ کرتا رہے گا اور جب تک اس کے گناہ کی وجہ سے نقصان ہوتا رہے گا، مجھے مؤاخذہ کیا جاتا رہے گا. ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اچھائیوں کو بیاں کریں اور ان پر عمل کریں. اسلام کو ایسا پیش کریں کہ دنیا اس کی طرف متوجہ ہو. آج کی دنیا ارتباطات کی دنیا ہے. کتاب «الحدود» کا اٹھا کر مطالعہ کریں، دیکھیں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: اگر کوئی مسلمان شخص، بلاد شرک (مشرکوں کے ملک) میں کسی جرم کا ارتکاب کرے اور اس پر حد جاری کرنا چاہیں، تو اگر اس شخص پر حد کو جاری کرنے سے ممکن ہے وہ شخص اسلام سے متنفر ہو کر کافر بننے کی طرف رجحان پیدا کر لے تو اس وقت کیا اس پر حد جاری کر سکتے ہیں؟ روایت کہتی ہے کہ نہیں!. اب اگر کوئی ایسے حکم کو جاری کرنا چاہیں تو اسلام کی عزت اور آبرو کے لئے نقصان دہ ہو، کیا اس کو اجراء کر سکتے ہیں؟ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ اس کو جاری نہ کیا جائے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ پہلے اس حکم کو جاری کرنے کے مقدمات فراہم کریں اور اس نقصان سے بچاؤ کا سوچ لیں پھر بے شک اس حکم کو جاری کریں. «ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم» ہمیں چاہئے کہ قرآن اور اس کے احکام کو ایسے طریقے سے پیش کریں جو انسانی فطرت سے سازگاری رکھتے ہوں. انسانی فطرت بھی ظلم سے ٹکراؤ رکھتی ہے. اور یہ عقل کی بدیھیات میں سے ہے. ہم اسلام کو کہیں ایسا پیش نہ کریں جو دوسرے سمجھیں کہ اسلام تو ظلم کی تأیید کرتا ہے. اسلام کی فطرت یہ ہے کہ دوسرے انسانوں کے حقوق کو پامال کرنے سے بیزار ہے. اسلام کی فطرت، منطق کی فطرت اور گفتگو اور ڈائیلاگ کرنے کی فطرت ہے، نہ یہ کہ رابطے کو کاٹنے اور ختم کرنے کی فطرت. کیا آپ غزالی کی کتاب «احیاء العلوم» کو بالکل نیست و نابود کر دیں گے. اس میں بہت سی غلط باتیں کی گئی ہیں. مرحوم فیض نے آ کر اس کا جواب دیا ہے. ہمیں خود شبھہ نہیں ڈالنا چاہئے، اگر ہم نے ایسا شبہہ جو لوگوں کے ذہن میں نہ ہو اس کو ہوا دی تو قیامت کے دن ہم سے بازخواست کی جائے گی اور ہم سے پوچھا جائے گا. لیکن اگر کوئی سوال یا شبہ کسی کے ذہن میں ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سوال آپ کے ذہن میں بالکل آنا ہی نہیں چاہئے. ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام «اولی الامر» ہونے کے با وجود بھی جن کی اطاعت بغیر کسی شرط و شروط کے واجب ہے (اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم)، باقی تمام اطاعتوں میں قیود اور شرطیں ہوتی ہیں، باقی تمام اطاعتوں میں پوچھنے کا حق ہوتا ہے، صرف اللہ تعالی کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت کرنے میں کسی سوال کی گنجائش نہیں ہے. اب کوئی کہے کہ یہ اولی الامر، معصومین کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہے تو اس سے بات چیت کی جا سکتی ہے کہ کم از کم جا کر «المیزان» کا تو مطالعہ کر لے. کم از کم حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے اس غضب آلود عمل کی طرف تو توجہ کرے کہ جب بعض لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ امام خمینی اولی الامر ہیں تو امام خمینی (رح) نے فوراً فون اٹھایا اور ان کو فرمایا کہ «اپنی اس بات کو واپس لے لو اور یہ غلط ہے». ائمہ معصومین علیھم السلام کے فرامین بغیر چون و چرا کے مانے جائیں گے. نہ مقدمہ ہوگا نہ مؤخرہ. اس کے باوجود کہ خداوند عالم نے ائمہ علیھم السلام کو ایسی قدرت عطا فرمائی ہے، لیکن یہ قدرت بھی ان کی اپنی طرف سے اور اسی طرح اللہ تعالی کی طرف سے محدود ہے. اٹھا کر ایسے فرد کے بارے میں آئی ہوئ روایات کو ملاحظہ فرمائیں جو مارا جاتا ہے اور اس کا کوئی ولی وارث نہیں ہوتا. ایسے فرد کی ولایت حکومت کا فرض بنتا ہے. حکومت چاہے تو قاتل کو قصاص کر سکتی ہے یا اس کی دیت لے سکتی ہے لیکن یوں ہی اسے معاف نہیں کر سکتی. کیوں؟ کیونکہ خود معصوم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: «اس کا خون سب عوام کا حق بنتا ہے اور امام لوگوں کے حقوق میں دخالت نہیں کر سکتا». اسے قاتل کو معاف کرنے کا حق نہیں ہے. یہاں پر حق کے بہت وسیع معانی ہیں جو مکان اور زمان کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں. ایک زمانہ تھا جب صرف دس حقوق تھے، آج سینکڑوں حقوق ہیں. کل ممکن ہے یہ اور بھی بڑھ جائیں. لوگوں کے حقوق صرف انہی کے ہوتے ہیں. ایک حدیث میں آیا ہے کہ «ما للناس فللناس» جو کچھ لوگوں کا ہے وہ لوگوں کا ہے. قرآن ہمیشہ صرف ناس اور عام لوگوں اور گروہوں کے بارے میں گفتگو فرماتا ہے.

حوزہ علمیہ میں مختلف سطوح پر درس دینے والے اساتید سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ اپنے فقہی دروس کے اختتام پر «تحریر الوسیلہ» سے امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے نظریات کو بھی اپنے شاگردوں کے لئے واضح کریں.

قرآن کی روش، سہولت کی روش ہے. قرآن مجید کی تمام سورتیں صرف سورة برائت کے علاوہ، سب کہتی ہیں کہ قرآن کریم کے قوانین سہولت کے قوانین ہیں. مھر اور محبت کے قوانین ہیں. «و ما ارسلناک الا رحمة للعالمین»، «یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر»، «بعثت علی الدین السھل السمح» نہ کہ زور اور جبر کے دین پر مبعوث کیا گیا ہو. اور نہ ہی گریہ و زاری یا چاپلوسی کا دین لے کر آیا ہو جو کسی فرد کو مجبور کریں کہ گریہ و زاری کر کے، کسی کی حمد و ثنا خوانی اور اس کی چاپلوسی کرے. «بعثت علی الدین السھل و السمح» یہ سہولت اور آسان لینا اور احسان کرنا کچھ اس طرح سے اسلام کے جزائی حقوق میں اس پر تأکید کی گئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی علیہ السلام نے کسی شخص پر حد جاری کرتے ہوئے کسی مجرم کی انگلیاں کاٹ دیں. ابن ابی الکواء جو خوارج میں سے تھا، اس قسم کی فرصت کے در پے تھا، {جیسا کہ آج کل کچھ متحجر لوگ چھوٹی چھوٹی فرصت کی تلاش میں ہوتے ہیں تا کہ اعتراض کر سکیں}، وہ یہ واقعہ دیکھ کر خوش ہوا اور آگے آ کر اس مجرم شخص سے پوچھنے لگا کہ جانتے ہو کس شخص نے آپ کا ہاتھ کاٹا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: یہاں پر نہیں بتا سکتا، ذرا چلو کسی ایسی جگہ پر آپ کو بتاؤں گا جہاں کچھ لوگ اکھٹے ہوں، وہاں پر آپ کا جواب دوں گا. ابن ابی الکواء بہت خوش ہوا اور ساتھ ہو لیا. ایک جگہ وہ شخص کسی اونچی جگہ پر جا کر پکارنے لگا «لیث الحجاز و کبش العراق و مصادم الابطال، المنتقم من الجھال، کریم الاصل، شریف الفضل، محل الحرمین، وارث المشعرین، ابوالسبطین، اول السابقین، و آخر الوصیین من آل یاسین، المؤید بجبرائیل، المنصور بمیکائیل، الحبل المتین، المحفوظ بجند السماء الجمعین، ذلک واللہ امیرالمؤمنین علی رغم الراغمین». اس شخص نے حضرت علی علیہ السلام کی تعریف کرنا شروع کر دی. حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع دی گئی کہ جس شخص کی آپ نے انگلیاں کاٹی ہیں وہ آپ کی تعریف کر رہا ہے. حضرت علی علیہ السلام نے، حضرت امام حسن علیہ السلام کو فرمایا کہ «ھات بعمک الاسود». جا کر اپنے سیاہ فام چچا کو میرے پاس لاؤ! یعنی ایسا مجرم جس پر حد جاری ہو چکی ہے وہ مسلمانوں کے امیر کا بھائی بن چکا ہے. امام حسن علیہ السلام گئے اور اس شخص کو بلا کر لائے. حضرت علی علیہ السلام نے اس کی انگلیاں اٹھا کر واپس اپنی جگہ پر لگا دیں اور دعا کی اور وہ اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا اور یہ ہونے والی بات ہے. (جیسا کہ مرحوم شہید حجة الاسلام و المسلمین سید حسن بہشتی رحمة اللہ علیہ جب اسلامی انقلاب کے اوائل میں قاضی تھے، جب مجرم کو اس کے جرم کی سزا دیتے تھے تو وہ مجرم ان کا ہاتھ چومتا تھا).

اسلام رحمت کا دین ہے. اسلام ایسا دین ہے جس میں قسط برقرار ہونی چاہئے. اسلام عام لوگوں کا دین ہے. حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کا ملک کو چلانے کے لئے یہ طریقہ ہوتا تھا کہ، ملک کو چلانے میں ایسا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور ایسی سیاست اتخاذ کرنی چاہئے کہ اگر خدا نخواستہ کسی کو کوئی نقصان بھی پہنچے تو وہ یہ نہ کہے کہ یہ اسلام کی وجہ سے ہے. یہ نہ کہے کہ یہ تو عمامہ رکھنے والوں کی طرف سے ہے، کہیں یہ نہ کہے کہ فلاں ادارے کی وجہ سے مجھ پر ظلم ہوا ہے. بلکہ یوں کہے کہ یہ خود میری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے.

یہاں میں حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کا یہ جملہ پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں تا کہ پتہ لگ سکے کہ امام کا کیا طریقہ ہوا کرتا تھا. صحیفہ امام خمینی، کی جلد نمبر ٦ میں یوں آیا ہے کہ حضرت امام خمینی نے ٢٧/١١/١٣٥٧کو یوں فرمایا تھا «اب جب ایک نیا جھگڑالو گروہ وجود میں آ چکا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس کا علاج کریں تا کہ یہ گروہ کچھ آرام ہو جائے اور جب وہ گروہ کچھ آرام ہو جائے گا اور مسئلہ عوام میں آئے گا اور خود عوام اپنے ملک کے فیصلے کریں گے، تو کسی پر اعتراض نہیں ہو گا. اگر یہ طی ہو کہ خود تم لوگ کسی کو اپنا نمائندہ مقرر کریں گے، اور جب یہ ایک طرف سے نمائندہ بنے گا، دوسرا دوسری طرف سے اور تیسرا تیسری طرف سے اور یہ نمائندے سب مل کر ایک حکومت بنائیں گے تو کسی پر کوئی اعتراض نہیں رہے گا. خود لوگوں نے یہ کام کیا ہے. کسی نے بھی ان کو مجبور نہیں کیا تھا. لیکن آج کل کے حالات کی وجہ سے ہمیں ان ابتدائی مسائل کو سنوارنا پڑ رہا ہے». آگے بڑھ کو یوں فرماتے ہیں: «اب بھی ہماری حکومت قانونی نہیں ہے، بلکہ اب موجودہ حالات میں ہماری کوئی حکومت ہے ہی نہیں، سابقہ پہلوی حکومت تو ملک کو چھوڑ کر چلی گئی، اگر چہ میری ذاتی نظر کے مطابق اب اسلامی جمہوری ہے لیکن دوسری دنیا کی نظر میں اس حکومت کو عوام کے آراء سے بننا چاہئے، اور ہم یوں ہی کریں گے کہ عوام کی نظر کے مطابق حکومت بنائیں گے، عوام کی آراء کے مطابق ایک «مجلس مؤسسان» بنائیں گے اور حکومت کو بنانے کے لیے بھی عوام کی آراء کو مد نظر رکھیں گے». (توجہ رہنی چاہئے کہ یہ گفتگو، اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے کے صرف پانچ دن بعد کی گئی ہے کیونکہ انقلاب ٢٢/١١/١٣٥٧ کو کامیاب ہوا تھا).

امام خمینی کے فقہی نظریات کو دوبارہ زندہ کرنا چاہئے، امام خمینی کی فقہ اسی حوزہ علمیہ میں اتنی مظوم واقع ہوئی ہے کہ کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ امام خمینی عظیم فقیہ ہیں اور امام خمینی واقعی علامہ اور ملا ہیں، ہم مدرسہ فیضیہ کی اس طرف سے لے کر اُس طرف تک چلتے تھے اور آپس میں اونچی آواز میں گفتگو کرتے تھے، اور چلتے ہوئے ہم ایک دوسرے کو اونچی آواز میں کہتے تھے کہ مثلا حاج آقا روح اللہ نے یوں فرمایا ہے، حاج آقا روح اللہ نے مرحوم نائینی پر کتنے اشکال وارد کئے ہیں، پانچ اعتراض، مقدس اردبیلی پر کتنے اشکال وارد کیے ہیں. اور حاج آقا رضا ھمدانی پر کتنے اعتراضات. میرا اور آپکا خدا گواہ ہے کہ مدرسہ فیضیہ کی سیڑھیوں کے اس طرف سے لے کر اس طرف چل کر آتے تھے صرف اس لئے کہ بیان کر سکیں کہ امام خمینی فقہ میں متبحر ہیں، امام کے پاس اصول فقہ بھی ہے. لیکن تأسف کی بات یہ ہے کہ آج بھی امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی فقہ مظلوم ہے.

امام خمینی کے نظریات کو صحیح اجاگر نہیں کیا جاتا. مرحوم آقا شیخ عبدالکریم (قدس سرہ) (حوزہ علمیہ قم کے مؤسس اور بانی) اور مرحوم سید محمد فشارکی اور میرزای شیرازی کی فقہ میں بہت کرّ و فرّ رہی ہے (ان کی فقاہت بہت عظمت کی حامل تھی) اور ان کے آپس میں رابطے کی وجہ سے اور اس کے بعد شیخ عبدالکریم اور ان کے ہم عصر فقہاء اور ہم رتبہ فقہاء سے، امام خمینی یا امام خمینی سے نیچے درجے کے فقہاء تک پہنچی ہے. اور انہوں نے بھی کچھ بعد میں آنے والے فقہاء تک منتقل کی ہے. لیکن ان میں سے کوئی بھی امام خمینی کی طرح اس فقہ کی عظمت کو منتقل نہ کر سکا. لیکن آج کل اس سابقہ عظمت کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے اور اس کا دوسروں کو منتقل کرنا بہت کم ہو گیا ہے.

آج حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی برسی کے موقع پر حوزہ علمیہ کے بزرگان سے ہماری ایک عاجزانہ التجا ہے، اور حوزہ علمیہ میں مختلف سطوح پر درس دینے والے اساتید سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ «لمعتین» میں کسی بحث کے اختتام پر ایک دن «تحریر الوسیلہ» سے امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے نظریات کو بھی اپنے شاگردوں کے لئے واضح کریں. ایسے اساتید جو حوزہ علمیہ کی بہت اوپر والی سطوح کو تدریس فرما رہے ہیں جیسے مثال کے طور پر «مکاسب» یا «رسائل»، تو مکاسب کی ہر بحث کے خاتمہ پر امام خمینی کے نظریات کو بھی بیان کریں. امام خمینی نے بھی مکاسب لکھی ہے، بیع لکھی ہے، خیارات کے بارے میں بحث کی ہے ... تب پتا لگے گا کہ امام خمینی کیا ہیں. اس طریقے سے امام کی فقہ دوبارہ زندہ ہو جائے گی. اور مظلومیت سے نکالی جا سکے گی. مرحوم حاج شیخ عبدالکریم حائری (حوزہ علمیہ قم کے بانی) کے زمانے سے لے کر آج تک، بیچ میں یہ جو گم شدہ کڑی ہے دوبارہ آپس میں مل جائے گی. حاج شیخ عبدالکریم نے اپنے فقہی مبانی کو حاج سید محمد فشارکی اور میرزای شیرازی سے اخذ کیا ہے. اس سلسلے کو منقطع ہونے سے بچانا چاہئے.

عزیزان ! آئیے امام خمینی کو فقہی مظلومیت سے نجات دلائیں. کیوں صرف امام خمینی کے سیاسی نظریات کو ہی زندہ رکھا جا رہا ہے. لیکن فقہی نظریات کو بھلایا جا رہا ہے. آج جو کچھ بھی حوزہ علمیہ کے پاس ہے وہ سب امام خمینی اور ان کی راہ پر چلنے والوں کے وجود کی وجہ سے ہے. ایران کے اندر اور اس کے باہر کی جوان نسل اسلام کی طرف مائل ہے. کہیں پر دو مسئلے ایسے لکھے جاتے ہیں جو لوگوں کی نظر میں وہ اسلام کے ساتھ اور فطرت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، یہ چیز عقل کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے. ہمارا مقصد عقلی استدلال نہیں ہے. (مثال کے طور پر) تعزیر کے مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کے ذیل میں روایت میں لفظ «رجل» آیا ہے لیکن مقدس اردبیلی فرماتے ہیں یہاں «رجل عاقل» کا ارادہ کیا گیا ہے. اور یہ عقل کی دلالت کی وجہ سے ہے نہ کہ ادلہ برہانی کی وجہ سے، یعنی ہماری سوچ اور فکر کے مطابق یہاں «رجل عاقل» ہونا چاہئے. عقل وہی ہے جو ادلہ اربعہ میں سے ایک ہے. یہ ہماری درک اور فہم ہے، وہی درک اور فہم جس کی وجہ سے امام خمینى نے نجف میں ربا کے فریب کو حرام قرار دیا، وہی سوچ و فکر جس کی وجہ سے مقدس اردبیلی «کتاب الدیات» کے آخر میں عورت کی دیت کے نصف ہونے کے بارے میں یوں فرماتے ہیں «یہ معروف اور مشہور حکم، نقلی قواعد کے خلاف ہے، عقلی قواعد کے خلاف ہے».

اجازت دیجئے کہ اجتہاد کا باب کھلا رہے ! اجازت دیجئے کہ اصلی ملاک اور معیار، موازین اور وضع کئے گئے اصول اور قوانین ہوں. سب جگہوں پر یہی موازین ہی معیار ہوتے ہیں. ذاتی نظریات مطرح نہیں ہیں. پورے ملک میں یہی موازین اور اصول ہی معیار ہیں. فقہ میں، منبر پر، قانون بناتے وقت اور ان کو اجرا کرتے وقت صرف یہی اصول اور موازین معیار ہیں. آئین کی شق نمبر چار میں یہ اصول اور موازین بیان کیے گئے ہیں، یعنی کہ اگر پالیمنٹ (مجلس شورای اسلامی) نے کوئی قانون پاس کر دیا، چاہے وہ بالکل نادر فتووں کے مطابق ہی کیون نہ ہو جیسا کہ مثلاً ابن ابی عقیل کے فتووں کے مطابق ہو اور چاہے اس پر ہمارے دسیوں اشکالات بھی ہوں لیکن ہماری نظر میں، اس قانون کو آئین کی شق نمبر چار کے مطابق موازین یا اصول کے خلاف نہیں کہنا چاہئے، کیونکہ ابن ابی عقیل جیسے کسی فقیہ نے ایسا فرمایا ہے. یا مثلاً مقدس اردبیلی یا شیخ عبدالکریم یا امام جیسے فقیہ نے ایسا فرمایا ہے.سید مرتضی اور شیخ مفید استاد اور شاگرد تھے لیکن سینکڑوں کلامی مسائل میں آپس میں اختلاف رکھتے تھے چہ جائیکہ فقہی مسائل میں.

اپنے عرائض کے آخر میں یہ بتاتے چلیں کے امام خمینی، صاحب جواہر کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں جو آج ہم آپ کے لئے پڑھنا چاہتے ہیں. امام خمینی صاحب جواہر سے مخاطب ہر کر عرض کرتے ہیں اور آج ہم امام خمینی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: « اے امام! ہماری زبان اور کلام آپ کی توصیف بیان کرنے سے قاصر ہے! اے ہمارے امام! زمانہ عاجز ہے کہ آپ جیسا کوئی تحقیق کے میدان میں، دقت کے لحاظ سے، مسائل کو صحیح بیان کرنے اور ان کو حل کرنے کے لحاظ سے اور آپ کی نیک فہمی اور روشن سوچ اور مسائل کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنے میں اور ان پر مرتب ہونے والے آثار اور ان مسائل کے فقہ میں ادلہ پر نظر رکھنے کے لحاظ سے کوئی دوسرا لا سکے! اے امام! ان سب کے علاوہ آپ عقلی علوم اور اسی طرح نقلی علوم میں ماہر تھے اور دونوں علوم میں محقق تھے. یہ آپ ہی تھے جنہوں نے تکوین اور تشریع کے مسائل میں جو اختلاط واقع ہوا ہے اس کو بیان فرمایا تھا.



والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ.

تاريخ: 2005/05/20
ويزيٹس: 7967





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org