«وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْض تَمُوتُ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ»کل کے حادثے میں وفات پانے والے فوج اور میڈیا اور اسی طرح عام آبادی میں بسنے والے تمام عزیزوں کے لئے، جو لقاء اللہ پا گئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ اپنے خالق کو پیش کر دیا، ان سب کے لئے ایک بار حمد اور تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت فرمائیں جو ایک قرآن کے ختم کرنے کا ثواب رکھتا ہے. اس کے بعد کچھ مطالب عرض کریں گے.اے میرے اللہ! یہ جو حمد و سورہ ہمارے بس اور ہماری توانائی میں تھا، ہم نے اس کی تلاوت کی ہے، اے میرے اللہ! ہماری آپ سے التجا ہے،اے خدا ہمیں معلوم ہے کہ ہم اس کے لائق نہیں ہیں لیکن توں اپنے کرم سے اس تلاوت کا ثواب اس حادثے میں جان بحق ہونے والوں کی روح کو ایصال فرما. ان کی روحوں کو حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور حضرت علی (علیہ السلام) اور باقی تمام پرہیزگاروں کے ساتھ محشور فرما.آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہم نے تسلیت کی خاطر یہ حمد و سورة کی تلاوت کی، تسلیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مصیبت زدہ عزاداروں کے لئے صبر طلب کرتے ہیں. اللہ تعالی آپ کو صبر دے، اللہ تعالی آپ کو اجر جمیل عنایت فرمائے، اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ یہ غم آپ کے لئے آخری غم ہو. اے میرے اللہ ایسی مصیبت دوبارہ نہ آئے. تسلیت میں ہماری نیت یہی ہوتی ہے اور اسی طرح سب انسانوں کی چاہت بھی یہی ہوتی ہے. لیکن توجہ رہنی چاہئے کہ زبانی تسلیت کے ساتھ ساتھ، عملی طور پر جو کچھ کر سکتا ہو اسے انجام دینا چاہئے. جو چلے گئے ہیں اور لقاء اللہ سے متصل ہو گئے ہیں ان کے بارے میں نہ ہم اور نہ آپ، کچھ بھی نہیں کر سکتے. سوائے اس تسلیت کے.امید کرتے ہیں کہ لقاء اللہ حاصل کرنے والے افراد کے لواحقین، اور ایران کی پوری عظیم قوم اور فوج اور میڈیا اور تمام دوسرے عزیز جو دوسرے میڈیا میں مصروف خدمت ہیں ہمارے اس کم ترین فرض کی انجام دہی کو شرف قبولیت عطا کریں گے. ورنہ کسی دوسرے کام پر توانائی رکھتے ہوئے صرف تسلیت عرض کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے. صرف تسلیت کہہ کر سب مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا. جیسا کہ گناہوں کو صرف «استغفراللہ» کہنے سے نہیں بخشوایا جا سکتا. عمل کرنے کے بغیر صرف دعا کا کوئی فائدہ نہیں ہے. بعض لوگ ہیں جو دعا کریں تو بھی ان کی دعا قبول نہ ہوگی. وہ لوگ جو گھر میں بیٹھ جائیں اور کوئی حرکت نہ کریں اور کہیں کہ اے اللہ! ہمیں رزق و روزی عطا فرما! یہ ایسی دعا ہے جو قبول نہیں ہو گی. لہذا تسلی دینے کے لئے بھی عملی تحرک چاہئے. وہ لوگ جو مستقبل کے بارے میں جان سکتے ہیں، اپنی سیاست، اپنے اقتصاد، اپنی سوچ اور اس طاقت کے ذریعہ جو قوم نے انھیں عطا کی ہے. کیونکہ معصومین علیھم السلام کے علاوہ اگر کسی کے پاس کوئی طاقت اور توانائی ہے تو صرف اس لئے ہے کہ عوام نے ان کو یہ حق دیا ہے، صرف معصومین علیھم السلام کے قدرت اور طاقت آپ کی عصمت کی وجہ سے تھی. کیونکہ وہ معصوم تھے اس لئے اللہ تعالی نے ان کو قدرت سے نوازا ہے. اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے لطف اور توجہ کی دلیل ہے.
اسلام میں حکومت کرنا نعوذباللہ، کبر و نخوت اور بڑا پن ظاہر کرنے سے نہیں بلکہ اسلام میں لوگوں کی خدمت کرنے سے انسان کو عظمت اور بزرگی ملتی ہے. «سید القوم خادمھم» جو بہتر خدمت کرے گا وہی زیادہ عظیم ہو گا.جو شخص بھی اگر کچھ کر سکتا ہے کہ ایسے حوادث دوبارہ تکرار نہ ہوں، اس کو دریغ نہیں کرنا چاہئے. ایسی مصیبتوں کو روکنا چاہئے. اے میرے اللہ یہ کیسی مصیبت تھی جو قوم پر آن پڑی! ان کے گھر والے اس مصیبت کو کیسے تحمل کریں گے! اگر بھی ان کے گھر والوں نے، ان کی بیویوں نے، ان کے بچوں نے، ان کی ماؤں نے، ان باپ نے، ان کی تمام اقرباء نے اس درد کو سہہ بھی لیا ہو، لیکن اتنی رقم جو ان پر خرچ کی تھی اور وہ خدمت جو یونیورسٹیوں کے پروفیسرز سے لے کر وہ تمام کام جو انجام دیے گئے تھے تا کہ یہ ستر کے قریب افراد میڈیا کے لئے فراہم ہوئے تھے، تمام خبر رساں ایجنسیوں سے، میڈیا سے یہ ان کے چیدہ چیدہ افراد تھے یہ ان کے بہترین افراد میں سے تھے، اس کا جبران کیسے ممکن ہو گا!ان افراد کی اہمیت کو کبھی مت بھولنا، جس طرح سے ممکن ہو ان کا احترام کیجئے، وہ لوگ جو لقاء اللہ حاصل کرے ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ہیں ان کا احترام کئجئے، ان کے جنازوں کی تشییع، ان کی ترحیم کی مجالس اور تقاریر میں ان کا احترام کیجئے. دنیا کو پتہ چلنا چاہئے کہ ہم میڈیا اور ایسے لوگ جو صحافت اور میڈیا سے وابستہ ہوتے ہیں ان کا احترام کرتے ہیں. اے شرق و غرب والو! میں ایک روحانی ہوں جو اپنے آپ کو اپنے عمامے کے ذریعہ، حضرت امام صادق علیہ السلام سے منتسب سمجھتا ہوں، اپنے فقہ کے درس کے بعد جس کا بہت زیادہ ثواب والے درسوں میں شمار ہوتا ہے اور اس زبدہ حاضرین کی محفل میں، اس حادثہ میں جاں بحق ہونے والے عزیزوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، ہم میڈیا اور اطلاع رسانی کو اہمیت دیتے ہیں، ہم اپنی فوج اور آرمی اور دوسرے سب ایسے لوگ جو خدمت کرتے ہیں ان کو اہمیت دیتے ہیں، ہم عام آدمیوں کے لئے بھی اہمیت کے قائل جو اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے ہیں. وہ بھی اپنی زندگی کے مسائل کے در پی تھے جو «مجاہد فی سبیل اللہ» کا درجہ رکھتے ہیں. ان افراد کی خبروں کو سنسر کرنا، ان کے خون سے خیانت اور عوامی میڈیا میں انحصار طلبی ہے. ایسے میڈیا میں انحصار طلبی ہو گی جو پوری قوم سے متعلق ہیں. نہ کہ صرف میرے ہوں یا آپ کے. انحصار گرائی خیانت ہے. خبروں کو سنسر کرنا خیانت ہے. (سنسر کرنا) صرف اس وقت جائز ہے جب شریعت کی مخالف ہو رہی ہو، جہاں گمراہی اور اضلال ہو. لوگوں کی بے عزتی کرنا اور ان کی توہین کرنا، ایسے افراد کے خون سے خیانت ہے جن کی ہمیشہ سے یہی کوشش تھی کہ مسائل کو صادقانہ طور پر عوام کے سامنے پیش کریں.اے میرے اللہ! ان تمام عزیزان کو حضرت سید الشہداء علیہ السلام اور آپ کے صحابہ اور حضرت حمزہ سید الشہداء اور آپ کے صحابیوں کے ساتھ محشور فرما، اے میرے اللہ! آج کے ہمارے درس کا ثواب، آج کے ہماری مجلس کا ثواب اور حمد و سورة کا ثواب ان کو روحوں کو بخش دے، اے میرے اللہ! توں خود ہمارے عذر سے درگذر فرما، توں خود جانتا ہے کہ ہم اس اظہار ارادت سے زیادہ ان عزیزوں کے لئے کچھ نہیں کر سکتے.والسلام علیھم و علیکم و رحمة اللہ
تاريخ: 2005/12/09