Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بيانات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دہشت گردي کي مخالفت کرنا، عاشورا کے دسيوں درسوں ميں سے ايک ہے.
آپ کا محرم سنہ ١٤٢٧ ھ کي مناسبت پر خطاب دہشت گردي کي مخالفت کرنا، عاشورا کے دسيوں درسوں ميں سے ايک ہے.

کربلا کے واقعہ کا سب سے پہلا اور سب سے عالي ترين درس يہي ہے کہ اسلام دہشت اور دہشت گردي کا سخت مخالف ہے اور ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس درس کو تمام دنيا تک پہنچائيں.حضرت آية اللہ العظمي صانعي جو اپنے درس خارج کے اختتام پر محرم کے بارے ميں گفتگو فرما رہے تھے، مذکورہ نکتے کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے اس بات پر زور ديا کہ اسلام آرامش اور سہولت کا دين ہے. آپ نے فرمايا: «افسوس کي بات ہے کہ آج اسلام متحجر اور نھرواني ٹوليوں کے ہاتھوں ميں گرفتار ہو چکا ہے. اسلام کے نام پر دہشت پھيلاتے ہيں، اسلام کے نام پر لوگوں کو شکنجے اور تکليفيں ديتے ہيں، اسلام کے نام پر مکانوں کو دھماکوں سے اڑا ديتے ہيں اور اسلام کے نام پر لوگوں کو چپ رہنے پر مجبور کرتے ہيں. لہذا تمام مبلغين، چاہے مقررہوں يا ذاکر يا صحافي اور اسي طرح عزاداروں کا فرض بنتا ہے کہ اسلام کي غربت اور اس کي مظلوميت سے دفاع کرنے کے لئے، جو ان افراد کے ناشايستہ اعمال کي وجہ سے ہو رہے ہيں، آج کربلا کا سب سے پہلا اور عالي ترين درس يعني يہ کہ اسلام آسايش اور سہولت اور منطق کا دين ہے اور دہشت اور دہشت گردي اور خشونت کا مخالف ہے اس درس کو تمام اقوام عالم کے کانوں تک پہنچائيں».آپ نے کربلا کے حادثے اور عبيداللہ بن زياد کو قتل کرنے کي سازش جو امام حسين عليہ السلام کے کوفہ ميں سفير، حضرت مسلم بن عقيل کے بعض قريبيوں نے بنائي تھي، اس کي طرف اشارہ کرتے ہوئے يوں فرمايا: «اے بشريت! اے وہ لوگ جو اسلام کے نام پر قتل کر رہے ہو! اے وہ لوگ جو اسلام کو خشونت کا دين سمجھتے ہو! اے متحجرين! اے پيچھے کي طرف پلٹنے والو! اے وہ لوگ جو اگر کہيں تمھيں طاقت مل جاتي ہے تو دوسرے لوگوں کو بے ارزش سمجھتے ہو! آؤ اور حضرت مسلم بن عقيل کے اس عمل کا ذرا غور سے مطالعہ کرو، اس کے با وجود کے ہر چيز عبيداللہ بن زياد کو قتل کرنے کے لئے فراہم تھي، اور اگر وہ قتل ہو جاتا تو ممکن تھا کہ بالکل کربلا کا حادثہ ہي سرے سے رونما نہ ہوتا، ليکن حضرت مسلم نے ايسا کرنے سے انکار کر ديا اور جب اس کي وجہ درياف کي گئي تو فرمايا: «الايمان قيد الفتک» ايمان اس قسم کے قتل کي اجازت نہيں ديتا.حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے برجستہ شاگرد نے آگے يوں فرمايا: حضرت امام خميني بھي اپني مبارزاتي سرگرميوں ميں کبھي بھي دہشت گردي کي طرف راغب نہ ہوئے، اور اگر بھي کبھي کسي کو مجازات اور جزا دينے کے عنوان سے کسي کو مار دينے کے لئے کہا ہے تو سب کے سامنے اور علي الاعلان کہا ہے، اور آپ کبھي اس چيز پر راضي نہيں ہوئے کہ مخفيانہ طور پر يہ کام کيا جائے. {حضرت امام خميني کے سلمان رشدي کے بارے ميں فتوے کي طرف اشارہ ہے، جب آپ سے عرض کي گئي کہ کچھ افراد کو اس کام کے لئے اجير کيا جائے تا کہ سلمان رشدي کو قتل کرديں، تو آپ نے سختي سے منع کر ديا تھا اور فرمايا تھا کہ اس پر حد جاري ہوني چاہئے نہ کہ دہشت گردي کے طريقے سے اس کو قتل کر ديا جائے.}آپ نے اپني گفتگو کے دوران، مبلغين کو امام حسين عليہ السلام کے قيام کے اھداف کو اجاگر کرنے اور ان کي ترويج کي تلقين فرمائي. آپ نے فرمايا: «وہ امر بالمعروف اور نہي عن المنکر جو حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام کے قيام کے فلسفے کے طور پر بيان کيا جاتا ہے، اس کا مطلب يہ نہيں تھا کہ حضرت امام حسين عليہ السلام لوگوں کو نيک کاموں پر مجبور کرنا چاہتے تھے يا زور سے ان کو منکرات سے روکنا چاہتے تھے. حضرت امام حسين عليہ السلام کا امر بالمعروف اور نہي عن المنکر وقتي نہيں تھا، بلکہ حضرت امام حسين عليہ السلام کا اصلي مقصد يہ تھا کہ امر بالمعروف کا کلچر علمي اور عملي طور پر معاشرے ميں وجود ميں آئے. يعني ايسا معاشرہ بنانا چاہتے تھے جس ميں لوگ خود بخود نيک کاموں کي طرف راغب ہوں. معاشرے کے سب لوگ، اسلامي اور بنيادي نيکيوں کي پہچان رکھتے ہوں، اور سب ان کو انجام ديتے ہوں، اور اس کے مقابلے ميں سب برائي کي تميز رکھتے ہوں اور سب ان کو ترک کر ديں. حضرت سيد الشہداء عليہ السلام نے اس کلچر کو معاشرے ميں پھيلانے کے لئے، اپني اور اپني اولاد اور اپنے اصحاب کي جانوں کا نذرانہ دے کر «معروف يعني نيکي» کو زندہ رکھا، نہ کہ آرام طلبي اور آسائش کے ساتھ.آپ نے اس نکتے پر تاکيد فرماتے ہوئے کہ انبياء عظام کا اصلي کام معروف اور منکر کے بارے ميں لوگوں ميں شعور پيدا کرنا تھا، يوں فرمايا:«معروف پر عمل کرنا اس وقت ہے کہ جب اسے معروف کے عنوان سے ہي انجام ديا جائے اور يہ کربلا کے حادثے ميں واضح نظر آ رہا ہے. لہذا ابھي کچھ ہي عرصہ اس واقعہ کو گزرا تھا کو بني اميہ کے خلاف قيام شروع ہو گئے تھے. مختار نے قيام کيا اور اسي طرح دوسروں نے بھي. کچھ عرصہ بعد حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر الصادق عليھما السلام تشريف لائے اور علمي اور عملي طور پر معروف اور منکر کو لوگوں کے لئے بيان فرمايا، اور اگر حضرت امام حسين عليہ السلام کي يہ قرباني نہ ہوتي تو بني اميہ آج بھي حکومت کر رہے ہوتے».

حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے فرمايا:«اصل ميں حضرت امام حسين عليہ السلام کي عزاداري کا مطلب يہ ہے کہ اگر دوسرے لوگ انسان کو اپني متابعت پر مجبور کريں تو انسان ان کے مقابلے ميں ڈٹ جائے «من اعتدي عليکم، فاعتدوا عليہ بمثل ما اعتدي عليکم&raqu

آپ نے اپني فرمايشات کے ضمن ميں واعظين، ذاکرين، تمام عزاداروں اور تمام شيعوں کو روايتي عزاداري کو احياء کرنے کي تاکيد فرمائي اور فرمايا: «اس کو کيسے اہميت نہ دي جائے، حالانکہ حضرت امام حسين عليہ السلام کي عالم خلقت ميں ولادت کے بعد آپ کا سب سے پہلے عزادار اور سب سے پہلا مصائب بيان کرنے والا خود اللہ تعالي کي ذات ہے اور سننے والا حضرت جبرئيل امين اور لاکھوں، کروڑوں دوسرے فرشتے تھے. جب حضرت امام حسين عليہ السلام کا تولد ہوا، تو حضرت جبرئيل کو حکم ملا کہ کروڑوں فرشتوں کے ساتھ جا کر حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو اس مولود کي مبارک باد دو اور ساتھ ہي تعزيت بھي پيش کرو کہ يہي حسين اپني تمام عظمت کے ساتھ آخر ميں خاص طريقے سے شھيد کر ديا جائيگا».آپ نے فرمايا:«حتي کہ اس سے پہلے بھي يعني قضاء اور تقدير اور لوح و قلم کے وقت بھي امام حسين عليہ السلام اور آپ کي عزاداري کي بات ہوئي ہے، اور آپ کي شہادت سے لے کر جب تک دنيا قائم ہے آپ کے مصائب کا ذکر چلتا رہے گا. اور حتي کہ قيامت کے دن بھي حضرت امام حسين عليہ السلام کي مجلس عزا بر پا ہو گي».آگے آپ نے يوں خطاب فرمايا:«روائتي مجالس کو ہي برقرار رہنا چاہئے اس طريقے سے کہ ايک مقرر آ کر خطاب کرے اور ذکر آ کر آپ کے مصائب کا ذکر کرے اور مرثيہ پڑھے اور عزادار ماتم کريں، سب ايک جگہ جمع ہو کر اس طريقے سے کربلا کے حادثے کو زندہ رکھيں، يہ اسلام کي بنيادي سياست ہے، اور اس کي اصل وجہ يہ ہے کہ مسلمان ظلم و جور سے تبري کرتے رہيں اور ظالم اور ستمگر لوگوں کے ساتھ کبھي بھي سازش نہ کريں.حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے فرمايا:«اصل ميں حضرت امام حسين عليہ السلام کي عزاداري کا مطلب يہ ہے کہ اگر دوسرے لوگ انسان کو اپني متابعت پر مجبور کريں تو انسان ان کے مقابلے ميں ڈٹ جائے «من اعتدي عليکم، فاعتدوا عليہ بمثل ما اعتدي عليکم»، اگر وہ ميري اہميت نہيں سمجھتے، اور مجھے بالکل ايک معمول چيز سمجھتے ہيں تو ميں بھي ان کو اسي طرح، بالکل معمولي سمجھوں، نہ يہ کہ يہ يکطرفہ ہو».آپ نے بيان فرمايا کہ ہر انسان، معاشرے ميں ايک رکن کي حيثيت رکھتا ہے، اور اس کا احترام اور اس کي عليحدہ شخصيت ہوتي ہے، اور غيبت کے زمانے ميں انسان کي سرنوشت اور حاکميت کو قبول کرنے کا حق، خود اس کے اختيار ميں ہے. آپ نے فرمايا: «يہ کتني غلط بات ہے جو کہا جاتا ہے کہ اسلام ميں لوگ صرف پتلے ہيں! يہ کتني غلط بات ہے جو کہا جاتا ہے کہ لوگ چاہيں آئيں يا نہ آئيں اس سے کوئي فرق نہيں پڑتا! يہ کتني غلط بات ہے جو کہا جاتا ہے کہ ہمارا عوام سے کوئي تعلق نہيں ہے، بلکہ غيبت کے زمانے ميں وہ مجبور ہيں کہ ہماري پيروي کريں!».امام خميني کے با لياقت شاگرد نے فرمايا:«امام حسين عليہ السلام کي عزاداري کرنے کا مطلب يہ ہے کہ ظالم کا احترام نہ کيا جائے، اور ظلم اور ظالم سے تبري اور دوري کريں، معاشرے ميں ظالم کا بائيکاٹ کيا جانا چاہئے. امام خميني سلام اللہ عليہ نے اپنے زمانے ميں ظالموں کے ساتھ يہي سلوک کيا، اور يہ جو فرمايا کہ ہماري تحريک حسيني تحريک ہے، اس کا ايک معني يہي ہے کہ ظالم سے تبري اور دوري کريں. ستم سے تبري کرنا، ايسے لوگوں سے تبري کرنا جو عام لوگوں کو اہميت کي نگاہ سے نہيں ديکھتے، نفاق سے تبري کرنا، دوغلے پن سے تبري کرنا اور اسي طرح سينکڑوں معصيتوں سے بيزاري کرنا. ظالم چاہے جو کوئي بھي ہو، اور چاہے جہاں پر بھي ہو، امام حسين عليہ السلام کا عاشق ہوتے ہوئے ہميں ظالم سے اجتناب کرنا ہوگا».آپ نے فرمايا: «ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ عزاداري کو اس کے تمام روائتي طريقوں کے ساتھ حفظ کيا جائے. ان ميں سے اکثر طريقے (ائمہ معصومين کي) احاديث ميں ذکر ہوئے ہيں يا ان احاديث سے اقتباس کئے گئے ہيں».حوزہ علميہ کے نوانديش فقيہ نے، بعض عزاداري کے طريقوں کے بارے ميں مثال کے طور پر جسم کے لئے نقصان دہ ہونے کے بارے ميں فقہي مباحث کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا: «ممکن ہے بعض بزرگ فقيہ، اس بارے ميں شبہہ رکھتے ہوں، ليکن ہمارے عقيدے کے مطابق يہاں پر بالکل نقصان دہ ہونے کا مسئلہ نہيں آتا، جو شخص کسي مرثيہ يا نوحہ خواني سے متأثر ہو کر اپنا سر پيٹتا ہے، وہ اس ميں اپني بھلائي سمجھتا ہے نہ کہ نقصان. اور اصولاً ايسے موارد ميں کہا گيا ہے کہ يہ موارد يا بالکل نقصان دہ نہيں ہوتے يا ايسا کوئي قابل ذکر نقصان نہيں ہے جو ان کے حرام ہونے کا سبب بن سکے. بلکہ وہ تو اس سے سرور حاصل کرتے ہيں، بلکہ يہ کہنا چاہئے کہ خاص شرئط ميں احساسات اور جذبات ميں آ کر اپنے آپ پر اختيار کھو بيٹھتے ہيں. چنانچہ حضرت زينب سلام اللہ عليھا نے بھي جب اپنے بھائي کے سر کو ديکھا کہ نوک سناں پر ہے تو بے اختيار ہو کر اپنے سر کو محمل کي لکڑي پر مارا اور اس سے خون بہنے لگا. «فَنَطَحت رأسھا بمقدم المحمل».آپ نے آگے بڑھتے ہوئے يوں فرمايا:«ذاکرين اور مرثيہ پڑھنے والوں اور تمام عزاداروں کو متوجہ رہنا چاہئے کہ ايسي باتيں اور ايسے موارد کو بيان کرنے يا انجام دينے سے پرہيز کريں جن کا عقلي اور شرعي طور پر باطل اور حرام ہونا واضح ہو، اور تمام عوام اور عقلاء ان کو غلط اور منکر سمجھتے ہوں، ايسے موارد سے فاصلہ اختيار کيجئے کيونکہ ايسے اعمال حرام اور عقل کے خلاف ہيں».آية اللہ العظمي صانعي نے خطاب کے آخر ميں اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر فرمايا:«جتنا کر سکتے ہو، حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام کي شخصيت سے محبت کا اظہار کرو، آنسو کي ايک بوند بھي انسان کو تمام گناہوں سے نجات دلانے کا باعث بن سکتي ہے، البتہ اس کا مطلب يہ نہيں کہ انسان کو بغير حساب کتاب کے جنت ميں لے جايا جائيگا، بلکہ اسي آنسو اور عزاداري کے سبب انسان کو توبہ کرنے کي توفيق نصيب ہوتي ہے، اور اس کے تمام گناہ، بشمول حقوق العباد کے اگر ان سے رضايت حاصل کر لے تو معاف کر دئے جائيں گے. اور يہاں پر اس ميں کوئي فرق نہيں ہے کہ مصائب کو بيان کر کے دوسروں کو رلائيں يا خود مصائب سن کر روئيں يا تباکي اور رونے کي صورت بنائيں يعني رونا نہ آنے کي وجہ سے، اپنا چہرہ ايسے لوگوں کي طرح بنائيں جو واقعي رو رہے ہوں».«والسلام عليکم و رحمة اللہ و برکاتہ»

تاريخ: 2006/01/19
ويزيٹس: 7679





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org