دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دشمنی اور فرقہ پرستی، الھی ادیان میں مطرود اور منفور ہے.
امریکہ سے آئے ہوئے علمی وفد کی آپ سے ملاقاتدشمنی اور فرقہ پرستی، الھی ادیان میں مطرود اور منفور ہے.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
17 جون سنہ 2003 کو امریکہ سے آئے ہوئے ایک عالی رتبہ علمی وفد نے قم میں جناب آیة اللہ العظمی صانعی سے ملاقات اور گفتگو کی. اس ملاقات میں اقوام عالم میں موجود خلش کو دور کرنے کیلئے علمی اور عملی طریقوں پر بحث کی گئی. اسی طرح آپ کے فتاوا کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے گئے جن کے جواب میں آپ نے اپنے فقہی اور عالمانہ نظریات کو بیان فرمایا.
ملاقات کی ابتدا میں واشنگٹن کے کرڈینل نے آپ کا شکریہ بجا لاتے ہوئے فرمایا: آپ کے بہت ممنون ہیں جو آج ہم یہاں ہیں. اور ہمارے یہاں ہونے کی وجہ، آپ کی نہ صرف ایران میں بلکہ عالمی سطح پر شہرت ہے. خصوصاً جو آپ کے جدید فتاوا سے حاصل ہوئی ہے.
سب انسان حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہیں اور انسانی حقوق میں ایک دوسرے کے برابر ہیں. لہذا بشریت کے حقوق کی برابری کے بارے میں سوچنا، فی الواقع دین اور انسان کی خدمت ہوگی.
اس ملاقات میں آپ نے بھی وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ ملاقاتیں، انسانوں کی سوچ اور دلوں کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہونگی. وفد کے ایک رکن کے جواب میں جس نے اقوام عالم میں موجود خلش کو کم کرنے کے بارے میں پوچھا تھا، آپ نے فرمایا:
بہت اچھا سوال فرمایا ہے اور میری دیرینہ خواھش یہی تھی اور اب بھی ہے کہ بنی نوع انسان آپس میں صلح و صفا اور آرامش سے زندگی بسر کر سکیں. اور اس سوال کے جواب میں یہی کہوں گا کہ اس امر کے لئے صرف دو راستے ہیں:
پہلا یہ کہ تمام دینی مکاتب، انسان کی سعادت کو عقل اور فکر کے تکامل میں پوشیدہ سمجھتے ہیں. اور یہ کہ خداوند نے درجے کے لحاظ سے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا ہے.
دوسرا یہ کہ سب انسان حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہیں اور انسانی حقوق میں ایک دوسرے کے برابر ہیں. لہذا بشریت کے حقوق کی برابری کے بارے میں سوچنا، فی الواقع دین اور انسان کی خدمت ہوگی.
آپ نے فرمایا: دشمنی اور فرقہ پرستی، الھی ادیان میں مطرود اور منفور ہے. اور ہمیں افسوس ہے کہ بعض موجودہ ادیان میں، ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن بنا ہوا ہے. ہماری کتاب یعنی کہ قرآن اور ہمارے عقیدے میں انسانوں سے کوئی عداوت اور دشمنی موجود نہیں. خاص طور پر ایسے انسان جو کسی دین کے پابند ہوں جو کچھ ہماری کتاب میں عداوت اور دشمنی کے بارے میں آیا ہے وہ سب ظلم اور ظالم کے بارے میں ہے. جو جہاں تک ہمیں معلوم ہے، دوسرے سارے ادیان میں بھی مطرود اور منفور ہیں وہ بھی معاشرے کے حقوق کو حفظ کرنے کے لئے. کیونکہ معاشرے کے حقوق کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ظلم کو روکا جائے، ہاں البتہ قانون کے دائرے میں رہ کر.
آپ نے فرمایا: ہر صاحب عقیدہ فرد (چاہے الھی اور چاہے مادی) اگر کوئی صالح کام انجام دے، تو وہ اس شخص کی اپنی نظر میں اور اسی طرح اپنے دوسرے ہمنوع افراد کی نظر میں معذور اور مأجور ہوگا. جس چیز کی ہماری کتاب میں مذمت کی گئی ہے وہ کفر ہے. کافر وہ شخص ہے جو اعتقادی اصولوں کو جانتے ہوئے، انکا انکار کرے. اسی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انساں حقوق لے لحاظ سے برابر اور مساوی ہیں. لہذا ہم نے ارث کی بحث میں کہا ہے کہ ایسا کافر جو جان بوجھ کر اور اعتقادی اصولوں کا علم رکھتے ہوئے ان کا انکار کرے، ایسا کافر مسلمان سے ارث نہیں لے سکتا اور اسی طرح غیر مسلم سے بھی اگرچہ خدا کا منکر بھی نہ ہو. لیکن غیر مسلم یعنی اکثر غیر مسلمان لوگ جو قاصر اور غافل ہیں اور جن کا ان کی غفلت کی وجہ سے مؤاخذہ بھی نہیں کیا جا سکتا اور وہ معذور ہیں، ان لوگوں کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ارث نہ لیں بلکہ وہ ارث لے سکتے ہیں.تاريخ: 2005/02/13 ويزيٹس: 5760