دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: «آپ حضرت امام خمینی کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کا خلاصہ ہیں.»
جناب میر حسین موسوی کو خطاب کرتے ہوئے، حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نے فرمایا«آپ حضرت امام خمینی کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کا خلاصہ ہیں.»
عراق اور ایران کی جنگ کے زمانے میں وزیر اعظم رہنے والے اور اب دسویں صدارتی الیکشن کے امیدوار جناب میر حسین موسوی نے آپ کے گھر میں حاضر ہو کر، آپ سے ملاقات اور گفتگو کی.
اس ملاقات میں جس بہت سی خبر رساں ایجنسیوں اور اخباروں کے نمائندے بھی حاضر تھے، حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نے جناب میر حسین موسوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: «آپ حضرت امام خمینی کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کا خلاصہ ہیں اور اپنا فریضہ سمجھ کر الیکشن کے لئے کھڑے ہیں اور حضرت امام خمینی (سلام اللہ علیہ) کی نظر میں جو اپنے فرض پر عمل کرتا ہے وہ یقیناً کامیاب ہے.»
حضرت امام خمینی (سلام اللہ علیہ) کے اس برجستہ اور دانشور شاگر نے فرمایا کہ حضرت امام خمینی کے نام کی عظمت اور آپ کے تفکرات کو محفوظ کرنے کے لئے تازیانے، قید اور شہادت کی قیمت دینی پڑی ہے. آپ نے فرمایا: «ہر حال میں حضرت امام خمینی کے نام، آپ کی عظمت اور آپ کے تفکرات کی پاسبانی کرنا ضروری ہے. کہیں یوں نہ ہو کہ حضرت امام خمینی کا کسی دوسرے فرد کے ساتھ موازنہ کر کے، حضرت امام کی منزلت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے. کیونکہ یہ کام امام، انقلاب اور اسلام کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہو گی. جس طرح امام کا احترام کرنا بھی امام اور انقلاب کی سب سے بڑی خدمت ہے اور ہماری نظر میں امام خمینی کا عظمت سے نام لینا عبادت ہے.»
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اس نکتے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہ ممکن ہے حضرت امام خمینی کے بعض اہداف اور آپ کے بعض مقاصد ابھی تک حاصل نہ کئے جا سکے ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ امام کی عظمت کو ٹھیس پہونچے. آپ نے فرمایا: «ہم نے حضرت امام خمینی (سلام اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد بھی، امام خمینی اور آپ کے افکار کی عظمت اور احترام کی پاسبانی کی ہے اور آپ کی رحلت کے بعد پہلے اجلاس میں ہی ہم نے آپ کے لئے «سلام اللہ علیہ» کے عنوان کو استعمال کیا جس پر بعض نے تعجب کا اظہار بھی کیا تھا.»
مرجع عالیقدر نے اپنی کلام کے دوسرے حصے میں جناب میر حسین موسوی سے مخاطب ہو کر معاشرے میں موجودہ مہنگائی اور افراط زر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «آج کی مہنگائی نے عوام کا ناک میں دم کر دیا ہے. اور اس کے با وجود کہ حضرت امام خمینی کے انقلاب کرنے کی وجہ سے، اس انقلاب نے عوام کی بہت خدمت کی ہے اور لوگوں کو رفاہ کی زندگی سے ہمکنار بھی کیا ہے لیکن دھیان رکھنا چاہئے کہ ہم نے یہ اسلامی جمہوریہ کا نظام اس لئے بپا نہیں کیا کہ لوگوں کی روٹی کو مہنگا کر دیا جائے. اسلامی جمہوریہ کا نظام تو اس لئے آیا ہے کہ زیادہ تولید کی وجہ سے ملک کو خود کفا کر دے، یہ اسلام کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے کہ ہم لوگوں کو گداگر بنائیں اور ان کو اپنے سے کمتر سمجھیں.»
آپ نے یہ نکتہ بیان فرماتے ہوئے کہ لوگوں کی صرف خاص اور ضروری موارد میں [بلا واسطہ] مدد کرنی چاہئے، فرمایا: «ملک میں اقتصاد کے برجستہ ماہرین کی موجودگی کے با وجود بھی کیوں ان سے مشورہ لیے بغیر ایسے کام کیے جاتے ہیں جن میں ہم پھنس جاتے ہیں اور ان کو حل تلاش نہیں کر سکتے.»
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے فرمایا: «ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اس میں کوئی بدنیتی شامل ہے، لیکن ماہرین کی مشورت سے مہنگائی کا کوئی حل تلاش کرنا چاہئے.»
آپ نے تحجرگرائی کے رواج سے پیدا ہونے والے خطرات اور اس کی وجہ سے انقلاب پر مترتب ہونے والے بھیانک نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «سب کا فرض بنتا ہے کہ تحجرگرائی اور عوام فریبی کو روکیں. وہی عوام فریبی جس نے حضرت امام خمینی کو اپنے گھر تک محدود کر دیا تھا اور آپ کو خانہ نشین کر دیا تھا اور اسی وجہ سے امام خمینی کو ایک فقیہ کے عنوان سے اس دن کے معاشرے کو متعارف کرانے سے روکے ہوئی تھی. اور امام پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی، جو اگر حضرت امام خمینی کے شریک حیات کی بے لوث حمایتیں نہ ہوتیں، تو کیا معلوم حضرت امام خمینی اپنی تحریک کو آگے بڑھا سکتے یا نہیں؟»
آپ نے آنے والے انتخابات کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جناب میر حسین موسوی سے خطاب فرمایا: «مسائل اور مشکلات کو واضح اور شفاف طور پر عوام کے سامنے رکھئے؛ کیونکہ اس نظام کا سب کچھ اسی عوام کا ہے اور یہی عوام ہی صاحب اختیار ہیں اور اصلی میزان بھی قوم کی آراء ہیں اور اس ملک اور اس نظام میں کوئی بھی فرد اور کوئی بھی عہدہ، عوام کی رائے کے بغیر، نہ صرف مقبول نہیں بلکہ اس میں کوئی الہی مشروعیت بھی نہیں ہے اور حتی کہ اس تصرفات بھی حرام ہیں.»
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے مزید فرمایا: «جمہوریت یعنی عوام، اور اسی عوام کو حاضر رہنا چاہئے اور ملک کے ارباب اختیار کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی آراء کی حفاظت کریں؛ کیونکہ عوام کی آراء فی الواقع امانت ہیں.»
مرجع عالیقدر نے امام سجاد علیہ السلام کی اس حدیث کو نقل فرمایا جس میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: «اللہ تعالی تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے مگر دو گناہوں کو. ایک تقیہ کو ترک کرنا اور ایک دوسروں کے حقوق کو ضائع کرنا.» آپ نے فرمایا: «عوام کے آراء ان کے حقوق ہوتے ہیں جن کی حفاظت کرنی چاہئے.»
آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہ سلیقوں میں اختلاف رکھنے کو اصل نظام میں اختلاف نہیں سمجھنا چاہئے، فرمایا: «اس نظام کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ اگر تمام طاقتیں بھی اکٹھی ہو جائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں جس طرح حضرت امام خمینی کے زمانے میں بھی کچھ نہیں کر سکے، لیکن ظرفیت کو بڑھانا چاہئے. یہ کون سی بات ہے کہ جب بھی کوئی بات کرتا ہے فوراً کہا جاتا ہے کہ یہ ملکی سالمیت کے خلاف ہے، کیا ملکی سالمیت بازیچہ ہے جو میری یا مجھ جیسے کسی دوسرے فرد یا کسی اخبار اور مجلہ کی بات سے ختم ہو جائے؟ لہذا ہمارا نظریہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنانے کی بجائے اپنی ظرفیت کو بڑھایا جائے.»
آپ نے آخر میں جناب میر حسین موسوی کے لئے کامیابی کی تمنا کرتے ہوئے فرمایا: «اللہ تعالی انہی کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے فریضے پر عمل کرتے ہیں.»
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ملاقات کی ابتدا میں جناب میر حسین موسوی نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: «انہی چیزوں میں سے ایک چیز جس کی حضرت امام خمینی نے اس ملک میں بنیاد ڈالی ہے، قانون کے مطابق حکومت کرنا ہے اور ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اگر اس ڈھانچے کی حفاظت کی جائے، تو اصل نظام بھی محفوظ ہو جائے گا.» آپ نے فرمایا: «حضرت امام خمینی نے ایسے اصولوں کی بنیاد رکھی ہے جو عوام کی اجتماعی تحریک کا موجب بنی اور جن کی وجہ سے عوام کی مشکلات کی گرہ کشائی ہوئی ہے.»
جناب میر حسین موسوی نے یہ نکتہ بیان کرتے ہوئے کہ مراجع کے ساتھ رابطہ رکھنا ہمارے لئے اصلی اصول ہے، حضرت آیة اللہ العظمی صانعی سے مخاطب ہو کر فرمایا: «آپ ایک عالی قدر مرجع ہیں جن کی میں بہت پہلے سے عزت کرتا رہا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں.»
جناب موسوی نے مزید فرمایا: «مرجعیت، تاریخی سابقہ، خوشنامی اور استقلال کی وجہ سے، تعیین کرنے والا کردار رکھتی ہے. مرجعیت کا سالم انتخابات سے دفاع کرنا اور ہر ایسی تحریک جس میں خیر اور نیکی کا رجحان ہو، کی حمایت کرنا بہت مٶثر ہے.»
آپ نے فرمایا: «اگر چہ عوام کی آراء کی حفاظت اور صحیح اور منصفانہ انتخابات کے بارے میں کچھ تحفظات موجود ہیں، لیکن اس کے با وجود ہم اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے، صاحبان فکر اور عوام کی حمایت سے اپنے تحریک کو آگے بڑھائیں گے.»
آپ نے سماج میں موجودہ مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «ان مشکلات کی وجہ سے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ان مشکلات کے با وجود ہم چپ نہیں رہ سکتے، اور اگر موجودہ حالات سے مطمئن ہوتے تو میدان میں نہ اترتے.»تاريخ: 2009/04/09 ويزيٹس: 12667