دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت آية اللہ العظمي بروجردي کے فقہي تفکرات کے بارے ميں آپ کے خيالات
روزنامہ شرق سے انٹرويوحضرت آية اللہ العظمي بروجردي کے فقہي تفکرات کے بارے ميں آپ کے خيالات
حضرت آية اللہ العظمي بروجردي کے فقہي تفکرات کے بارے ميں آپ کے خيالات (روزنامہ شرق سے انٹرويو)
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے ايک گفتگو کے دوران يوں واضح فرمايا کہ:
روزنامہ «شرق» کا شکريہ ادا کرنا چاہئے جو حضرت آية اللہ العظمي بروجردي کے بارے ميں ايک سپیشل ایشو چھاپ رہا ہے. اور يہ اس شرط پر ہے کہ اس ياد نامے ميں سياسي کھيل شامل نہ ہو. کيونکہ اس صورت ميں فقہ اور فقاہت پر بھي اور خود حضرت آية اللہ العظمي بروجردي پر بھي ظلم ہو گا. اگر سياسي بحث کرني ہے تو اپني جگہ پر ہوني چاہئے ليکن يادنامہ ان سياسي باتوں سے پاک اور دور ہونا چاہئے.
کسي زمانے ميں حضرت آية اللہ بروجردي کے بارے ميں ايک سمينار منعقد ہوا تھا. جناب واعظ زادہ خراساني نے عنایت فرمائی اور يہاں تشريف لائے تا کہ ہميں بھي اس کي دعوت ديں. ہم نے ان سے بھي يہي کہا کہ اگر چاہتے ہيں کہ يہ سمينار علمي ہو تو اس کو سياسي خط و خطوط سے پاک رہنا ہوگا. کيا جن لوگوں کو دعوت ديتے ہو، ان کي بتائي ہوئي باتوں کو منتشر بھي کر سکتے ہو يا نہيں؟ انھوں نے جواب ديا کہ نہيں. ہم انھيں منتشر نہيں کر سکتے. تو ہم نے بھي کہہ ديا کہ ہم بھي نہيں آ سکتے. کيونکہ يہ سياسي عمل ہے. اسي شرط کے ساتھ انشاء اللہ ہمارے کيے ہوئے عرائض کو منتشر کيا جائے گا. ورنہ ہمارے يہ چند پہلے جملے بھي حذف کيے جائيں. کيونکہ ہم شيعہ کي وزين اور مثمر ثمر فقہ کو ان سياسي اور حکومتي رويوں سے مخدوش نہيں کرنا چاہتے.
روزنامہ «شرق»، جو خاص وزانت رکھتا ہے، اور يہ اس کي تحقيقاتي اور فکري اور حقوقي مباحث سے صاف طور پر واضح ہے، اس بار بھي اس بحث کا پورا حق ادا کرے گا.
اھل سنت فقھاء کے آراء کا احترام کرنے کي ايک تاريخي واقعيت ہے. يہ احترام سيد مرتضي کے زمانے سے تطبيقي فقہ اور تطبيقي حقوق (دونوں فقہ کا آپس ميں موازنہ کرتے ہوئے) کے عنوان سے موجود تھا. سيد مرتضي نے کتاب «انتصار» لکھي اور اس ميں اھل سنت اور اماميہ کے مباني کو ذکر فرمايا اور مستند طور پر ايسي دليلوں سے جو اھل سنت بھي انھيں مانتے ہيں اور ايسي دلائل جو واقعي طور پر دليل ہيں ان کا جواب ديا ہے. بعد ميں جناب شيخ طوسي کي باري آتي ہے جو کتاب «خلاف» لکھتے ہيں اور تطبيقي فقہ کو جاري رکھتے ہيں. علامہ بھي اپني کتاب «تذکرہ» ميں يہي روش اختيار کرتے ہيں جس کو آج کل «فقہ مقارن» کہا جاتا ہے. يہ سب لوگ اھل سنت کي فقہ کو مد نظر رکھتے تھے اور اس کا جواب ديا کرتے تھے. اس کا مطلب ہے کہ اس کي تاريخ ميں جڑيں ہيں. ليکن حضرت آية اللہ بروجردي کا فقہ ميں طرہ امتياز يہ رہا ہے کہ وہ مسائل کي جڑيں تلاش کيا کرتے تھے. لہذا اس کام کے لئے اھل سنت کے فقھاء کے نظريات سے آشنائي اور ان کي جان بوجھ رکھنے کو بہت ضروري سمجھتے تھے. کيونکہ آپ کا عقيدہ يہ تھا کہ ابتدائي طور پر شيعہ کي فقہ، اھل سنت کي فقہ سے نکلي ہوئي ايک شاخ ہے. حضرت آية اللہ بروجردي کو جو دوسروں پر اہم ترين برتري حاصل ہے وہ يہي ہے کہ آپ جڑيں نکالا کرتے تھے. اور اصل ميں بھي يہي چيز اہم ہے. آپ جناب بحر العلوم کے اولاد ميں سے تھے. آپ بھي علوم کي ريشہ يابي اور جڑيں تلاش کرنے ميں بہت مہارت حاصل تھي. آپ کي کتاب «مصابيح» کو بعض افراد چھپوانا چاہتے ہيں. اس کتاب ميں ہم نے يہي ديکھا ہے کہ يہ روش بہت وضاحت سے پائي جاتي ہے. شايد آپ کي طرف سے اس طريقے کا اتخاذ کرنا، آپ کي کثرت تتبع اور کثرت تفقہ کي وجہ سے ہو.
حضرت آية اللہ بروجردي کا فقہ ميں طرہ امتياز يہ رہا ہے کہ وہ مسائل کي جڑيں تلاش کيا کرتے تھے. لہذا اس کام کے لئے اھل سنت کے فقھاء کے نظريات سے آشنائي اور ان کي جان بوجھ رکھنے کو بہت ضروري سمجھتے تھے.
جيسا کہ اصفھان ميں نقل کيا جاتا ہے کہ جب آپ تحقيق اور مطالعہ ميں مصروف ہو جاتے تو وقت کے گذرنے کا احساس نہيں کرتے تھے. اور اپنے مطالعہ اور غور و فکر ميں مگن رہتے تھے.
اسي طرح لکھنے ميں بھي بہت دقيق اور حساس تھے يہاں تک کہ آپ کے آثار اگر چہ بہت زيادہ ہيں، ليکن ان ميں سے کوئي ايک بھي آپ کي حيات ميں نہ چھپ سکا کيونکہ جب بھي ان کو دوبارہ پڑھتے تھے تو اس ميں کچھ اضافات فرمايا کرتے تھے. آپ اپنے فتووں ميں بھي يہي حساسيت اور وسواس رکھتے تھے. ہميں ياد ہے جب ابتدائي ايام ميں طالب علم جمکران جاتے آتے تھے، اور نماز قصر کي بحث چل رہي تھي، آپ ھر دو، تين مہينوں ميں مختلف نظريات بيان فرماتے تھے. کبھي فرماتے تھے کہ نماز قصر ہے اور کبھي فرماتے تھے کہ نماز کامل پڑھني چاہئے. کيونکہ متواتر طور پر تفحص اور تتبع ميں مصروف رہتے تھے. غالباً آپ ريشہ يابي اور اپنے سلف کي اقتدا کرتے ہوئےاھل سنت کي نظريات کو نقل فرمايا کرتے تھے اور يہ ايک پسنديدہ اور اچھا عمل تھا. اور يہ جو آپ اھل سنت کے نظريات کو احترام کي نظر سے ملاحظہ فرماتے تھے يہ بھي ايک انساني فضيلت ہے. اور اسي طرح اسلامي سياست کي فضيلت ہے. انساني فضيلت کے لحاظ سے ہم نے غيبت کي بحث ميں عرض کيا ہے کہ کسي شخص کي بھي غيبت جائز نہيں ہے. بعض فقھاء کے برخلاف جو يہ کہتے ہيں کہ غير شيعہ فرد کي غيبت جائز ہے يا حرام ہونے پر کوئي دليل موجود نہيں ہے. ہم نے مکاسب محرمہ ميں بيان کيا ہے کہ کسي شخص کي بھي غيبت جائز نہيں ہے. غيبت کا مطلب يہ ہے کہ حسد سے کسي دوسرے شخص پر تنقيد کرنا نہ يہ کہ اگر مجھ پر ظلم ہوا ہو تو بھي مجھے حق نہ ہو کہ ميں فرياد کر سکوں. يا يہ کہ اگر کوئي فرد معاشرے ميں کسي خلاف کا ارتکاب کرے تو ہميں اس پر تنقيد کرنے کا حق نہ ہو. ايسي غيبت جو حرام ہے اور سب انسانوں کے لئے حرام ہے، وہ ايسي غيبت ہے جو حسد سے نشئت ليتي ہو. وہ ايسي غيبت ہے جس ميں مجھے ناراضگي ہو کہ فلان شخص کيوں ايسي فضيلت رکھتا ہے.
غيبت کے جائز ہونے کے موارد بہت زيادہ ہيں، شھيد ثاني نے اپنے غيبت کے رسالے ميں دس بيس موارد کو شمار کيا ہے. ليکن ہماري نظر ميں ان موارد ميں بھي غيبت کرنا جائز نہيں ہے. ابتداء سے ہي يہ موارد غيبت کے موارد ميں سے نہيں تھے. (جو ان کو استثناء کيا جائے). مرحوم محقق داماد کے بڑے صاحب زادہ سے نقل کيا گيا ہے کہ: ہمارے والد محترم کا يہ عقيدہ تھا کہ غيبت کي بعض روايات بني اميہ کے زمانے ميں، کربلا کے حادثے کے بعد وارد ہوئي ہيں. کيونکہ بني اميہ نے بہت ظلم ڈھائے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے کہ يہ ظلم دوبارہ بيان ہوں. لہذا غيبت کے بارے ميں ان مطالب کو بيان کيا ہے، حالانکہ في الواقع يہ بالکل غيبت ہي نہيں ہے. بلکہ کيے گئے ظلم کا حال بيان کيا جاتا ہے. يا اگر کسي فرد نے کوئي عہدہ سنبھالا ہو تو اپنے ماتحت کو اجازت ہوني چاہئے کہ اپني بات کہہ سکيں. يا اگر کسي نے اپنا نظريہ علني طور پر بيان کيا ہو تو مجھے بھي ہق ہونا چاہئے کہ ميں بھي علني طور پر اپنا نظريہ بيان کر سکوں. ان موارد کے علاوہ غيبت مطلق طور پر حرام ہے.
لہذا حضرت آية اللہ العظمي بروجردي اس چيز کا بہت خيال رکھتے تھے اور اہل سنت کے خلاف کچھ نہيں بولتے تھے. يہ اسلام کي تھذيبي اور علمي شان کي وجہ سے ہے. آپ بين الاقوامي طور پر پورے عالم اسلام کي وحدت کے قائل تھے. ويسے بھي دوسروں کے مقدسات کے بارے ميں بري زبان استعمال کرنا خود برا فعل ہے. قرآن ميں آيا ہے «و لاتسبوا الذين يدعون من دون اللہ». کہنا چاہئے کہ شيعہ کا اصلي تکيہ اپنے مثبتات پر ہے اور اگر چاہتے ہيں کہ شيعہ کو پہچنوائيں تو انہي مثبتات پر زور دينا چاہئے.
حضرت امام خميني کي ايک کتاب ميں بھي آپ نہيں پا سکيں گے جہاں پر آپ نے اہل سنت کے بزرگوں کے احترام يا اخلاق کے خلاف کچھ کہا ہو. ہمارے بزرگوں کا يہ رويہ رہا ہے. جس طرح مرحوم فيض کاشاني کے بارے ميں کيا کيا بتايا گيا ہے. حضرت امام خميني اپني کتاب «چھل حديث» ميں افراد کے آپس ميں اختلاف کے بارے ميں فرماتے ہيں: کسي ايک فرد کتاب لکھي اور اس کو ان افراد کے لئے وقف کر ديا جو جناب فيض کاشاني کو ھر روز سو بار لعنت کريں. حالانکہ جناب شاہ آبادي فرمايا کرتے تھے کہ کسي شخص پر بھي لعنت نہ بھيجا کريں جب تک ائمہ اہل بيت عليھم السلام کي طرف سے اس کے بارے ميں لعنت نہ کي گئي ہو. کيونکہ ممکن ہے کہ اس کا اللہ تعالي سے رابطہ اصلاح ہو چکا ہو. حضرت آية اللہ بروجردي بھي اس اخلاقي روش کے مطابق کبھي بھي کسي کے احترام کے خلاف کوئي اقدام نہيں کيا کرتے تھے. ليکن سياسي لحاظ سے بھي مسلمانوں کو چاہئے کہ آپس ميں متفق ہوں. اس صورت ميں اسلام پر پريشر اور اسلام کي توہين کم تر ہو جائے گي. اور يہ توقع بھي نہيں کرني چاہئے کہ اقتدار ميں رہنے والے سياستدان آکر يہ اتفاق اور اتحاد پيدا کريں گے، کيونکہ ممکن ہے ان کے منافع اور ان کي رياست کو اس اتفاق سے خطرہ لاحق ہو جائے. حضرت آية اللہ بروجردي کا عقيدہ تھا کہ يہ اتحاد قائم ہونا چاہئے. ہم سب کو اس اتحاد کے لئے کوشش کرني چاہئے تا کہ حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف) کے ظہور ميں سب حق اور عدالت کي پيروي کريں. البتہ يہ تاريخ کا جبر ہے کہ تمام بشريت وحدت کي طرف جا رہي ہے. «ھو ارسل رسول بالھدي و دين الحق ليظھرہ علي الدين کلہ و لو کرہ المشرکون». آج تمام انسانيت اختلافات سے تنگ آ چکي ہے. اور موجودہ اختلافات کا اکثري حصہ بھي حکومتوں کي وجہ سے ہے. اور کچھ حصہ جھالت اور عدم آگاہي کي وجہ سے ہے ورنہ اگر واقعي اسلام کو صحيح طور پر بيان کيا جائے تو سب اس کو مان ليں گے.
بعض اقتدار ميں رہنے والے لوگ اس بات سے خوش نہيں ہيں کہ ايک شيعہ عراق کا صدر بنے. بعض دوسرے اس کے سني ہونے سے ناخوش ہيں. حالانکہ کوئي فرق نہيں کرتا.تاريخ: 2006/04/18 ويزيٹس: 8808