Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: سوانح حيات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: میدان افتاء میں
میدان افتاء میں تحقیق و تدقیق بالخصوص فقہ الحدیث میں باعث ہوئی کہ آپ فتوی دینے میں بہت زیادہ سختی سے کام لیں اس لئے کہ آیات، روایات اور مبانی استنباط کو سمجھنے میں اصل اور قاعدہ سہولت پر خصوصی توجہ رکھتے ہیں اور مرحوم صاحب جواہر کی شیخ انصاری (رح) سے فرمائش «احتیاط کرنے میں کمی کرو»، شریعت اسلام آسان شریعت ہے ہمیشہ آپ کی توجہ کا مرکز رہی ـ
آپ نے مورد نظر عام فقہی مسائل پر تحقیق کرنے میں ان طلاب افاضل کے ساتھ تبادل نظر کرتے ہیں جو آپ کے گھر تشریف لاتے ہیں آھپ نے ان کے ذریعہ ایک استفتاء کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہےـ
حضرت استاد کی جو کتابیں ابھی تک طبع ہوئی ہیں یہ ہیں :
١ـ رسالہ توضیح المسائل
٢ـ مناسک حج
٣ـ مجمع المسائل (جلد اول)
٤ـ منتخب احکام
٥ـ طب سے متعلق استفتائات
٦ـ مصباح المقلدین
٧ـ خواتین کے احکام
اسی طرح تحریر الوسیلہ اور عروة الوثقی پر عربی میں حاشیہ لگایا ہےـ
آپ کے دیگر آثار اور تألیفات بھی ہیں جیسے امام خمینی (رح) کے درس خارج کی تقریرات، قاعدہ فراغ اور تجاور پر ایک رسالہ نیز تقیہ اور لاضرر پر بھی رسالہ تحریر فرمایا ہےـ
ابھی تک آپ سے جو سولا کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر آپ نے کئی ہزار استفتاء کا جواب دیا ہے اور آپ کی کتاب مجمع المسائل میں جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ کتاب میں اپ نے عظیم الشأن مرجع اور بزرگ فقیہ مرحوم مرزا قمی (رح) کی روش اختیار کی ہے اس طرح کہ مورد نظر فتوی کے علاوہ بعض جگہوں فتوی کی دلیلوں اور فقہی استناد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو تعلیم و تحقیق کے لحاظ سے حوزوی علوم پر تحقیق کرنے والوں نیز فقہی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہت مفید اور قابل توجہ ہےـ
آپ عظیم فقہاء، اصحاب کی آراء بالخصوص مشہور کی آراء کی نسبت جو تکریم و تعظیم کرتے ہیں اس کے تحت ہمیشہ طلاب بالخصوص اپنے شاگردوں کو فقہاء کی بہتر شناخت اور تعظیم کی دعوت دیتے ہیں اور نہایت عزت و عظمت کے ساتھ انھیں یاد کرتے ہیں ان کے نظریوں کی تعریف کرتے ہیں لیکن آپ کی فقہی افکار میں وسعت و آزادی بالخصوص اصول اور بالاخص فقہ میں قطعی مبانی کی طرف استناد پر توجہ یہ ساری چیزیں باعث ہوئیں کہ جدید فتوی اور نظریات مقلدوں کے عمل کرنے کے لئے پیش کریں یہ فتوی جو دائرہ اصول اور فقہی معیاروں کے تحت صادر ہوتے ہیں مکلف کے عمل کے میدان میں بہت سے موارد میں ان کی ذاتی اور اجتماعی مشکلوں کے لئے راہ گشا ہوں اور جو دلیلوں اور مبانی سے واقفیت رکھتے ہیں وہ مذکورہ فتوؤں کے مستندات اور مباحث کی تفصیل کی طرف رجوع کر کے دلیلوں کو بہتر اور زیادہ دقیق طرح سے سمجھ سکتے ہیں نیز سماج کی فقہی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یہ ایک گرانقدر سرمایہ ہو سکتا ہےـ ذیل میں اس طرح کے کچھ موارد بیان ہوئے ہیں:
١ـ آپ ولایت فقیہ کے متعلق فرماتے ہیں: ہر وہ مجتہد کہ جو جامع الشرائط ہو، ولایت فقیہ کے لئے منصوب ہے اور عوام کی نسبت مصالح عامہ جس کے متعلق احکام کو کوئی خاص حکم نہیں اس میں اجراء کی مشروعیت کلی طور پر عوام کی رائے اور رضایت کے ذریعہ یا پھر اکثریت کی رائے سے ہے اور اس کے اجراء کا حکم بدون واسطہ یا بالواسطہ طریقہ سے ولایت فقیہ کے ذمہ ہےـ
٢ـ لڑکیوں کے بلوغ کے متعلق آپ نے عمار ساباطی کی موثقہ جس میں سن بلوغ کو تیرہ سال بتایا گیا، کو ترجیح دیا ہے اور فرماتے ہیں: بلوغ کی وہ تمام علامتیں جن کے متعلق نصوص اور فتوی موجود ہیں، اگر ثابت و ظاہر نہ ہوں تو ١٣ سال کی عمر میں بالغ ہو گی ـ
٣ـ عورتوں کی قضاوت کے متعلق فرمایا: قضاوت میں ذکوریت کو کوئی خصوصیت نہیں ہے اور خصوصیت پر کوئی شرعی حجت بھی نہیں ہے اور جو قضاوت پر ولایت رکھتا ہے وہ عورتوں کو قضاوت کے لئے بالخصوص عورتوں اور کنبہ سے متعلق امور میں انھیں منصوب کر سکتا ہے اور قضا کی دلیلوں کا اطلاق عموم اور شمول کے اوپر حجت ہے جس طرح مرد معصومین کی طرف سے قاضی ہونے کے لئے جواز رکھتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی قضاوت کے لئے بالخصوص عورتوں سے متعلق امور اور حقوق کے لئے جواز رکھتی ہیں ـ
٤ ـ باپ نہ ہونے کی صورت میں چھوٹے بچے اور اسکے اموال پر ولایت کے متعلق آپ کا نظریہ ہے کہ ماں ہر صورت میں ولی ہے اور احسان معروف (نیکی) اور خیر کی دلیلیں اسے اپنے اندر شامل کر لیتی ہیں اس لئے کہ چھوٹے بچہ کا ولی ہونا احسان و بھلائی سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہے اور آیت کریمہ «و اولوا الارحام بعضھم اولی ببعض» کے تحت ماں دادا کی نسبت تقدم رکھتی ہے اور ماں نہ ہونے کی صورت میں دادا ولی ہےـ
٥ ـ عورت و مرد کی دیت میں تفاوت کے باب میں فرماتے ہیں: خطا اور شبہ عمد کی دیت میں عورت و مرد مساوی ہیں اور یہ حکم دیت کی دلیلوں کے اطلاق سے مأخوذ ہے اور اس میں کسی قسم کی تقیید اور تفصیل پر کوئی حجت نہیں ہےـ
٦ ـ کثیر السفر کے متعلق فرماتے ہیں: جو لوگ مسلسل ١٠ روز سے پہلے چار فرسخ کا ایک سفر کرتے ہیں (خواہ کسی کام کی غرض سے ہو یا کسی اور وجہ سے) اور ١٠ روز کسی ایک جگہ نہیں رکتے، کثیر السفر ہیں اور اگر لوگ اس طرح زیارت کے لئے بھی سفر کریں تو ان کی نماز تمام اور روزہ صحیح ہےـ
٧ ـ موسیقی کے متعلق فرماتے ہیں: موسیقی اور غنا کی حرمت اس کی کیفیت کے لحاظ سے ہے اور ہر وہ آواز، غنا اور موسیقی کہ ج سے لاابالی پن، بے حیائی و بے شرمی کی ترویج نہ ہوتی ہو، لوگوں کو منحرف ہونے کا سبب نہ ہو اور اسلام کی غلط تصویر پیش نہ کرے تو حرام نہیں ہےـ
٨ ـ کفار کے متعلق فرماتے ہیں: اظہر یہ ہے کہ وہ ویسے ہی طاہر ہیں جیسے مسلمان طاہر ہیں ـ ہاں ! کافر حربی کہ جو خود اسلام اور مسلمانوں کے عقیدہ کی بناء پر ان سے جنگ کرتا ہے (نہ کہ کسی اور وجہ سے) یہ دین کی بناء پر عناد رکھتے ہیں یا یہ ان تھوڑے سے کفار کی طرح ہیں جو اسلام کی حقانیت کو جاننے کے بعد بھی اس کے منکر ہیں اور نجس ہیں ـ
٩ ـ ربا کے متعلق فرمایا: سود کی حرمت جس کی طرف آیات اور روایات میں اشارہ ہوا ہے وہ مستہلک ہو جانے والا (استہلا کی) سود ہے نہ کہ وہ سود جس سے نتیجہ نکلے(ربای استنتاجی)ـ
١٠ ـ آپ قصاص میں عمومیت کے قائل ہیں اور تمام وہ لوگ جن کا خون اسلامی حکومت کے اندر محترم ہے اور قاتل و مقتول کے مسلمان یا کافر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہےـ صاحب بصیرت افراد کے لئے قصاص میں حیات، «و لکم فی القصاص حیاة یا اولی الالبات» اور یہ نظریہ قصاص کے عمومات، الملاقات اور مسئلہ کے متعلق اخبار جو کہ حجت ہیں کے لحاظ سے مستند ہےـ
١١ ـ ولایت، حاکمیت، مرجعیت اور فقیہ کے دیگر امور میں ذکوریت کو شرط نہیں سمجھتے اور اس میں صرف فقہ اور تقوی کو معیار قرار دیتے ہیں ـ خلاصہ یہ کہ آپ مدعی ہیں اسلامی حقوق میں قومیت کی بناء پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی اور گورے، کالے سبھی برابر ہیں ـ اسی طرح جنس اور شہریت کی بناء پر بھی کوئی فرق نہیں ـ
اسی طرح آپ کے دیگر نظریات بھی ہیں جو تبعیض کی مخالفت کرتے ہیں ان مباحث کی تفصیل کو آپ کے رسالہ عملیہ بالخصوص منتخب الاحکام میں دیکھا جا سکتا ہےـ

اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org