Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: انٹرويوز
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: پہلي بيوي کي رضايت کے بغير دوسري شادي کرنا، نيکي اور معروف زندگي اور اسي طرح عدالت کے خلاف ہے
آپ نے جرمني کے «دويجلند فونک» ريڈيو سے بات چيت اور گفتگو کی پہلي بيوي کي رضايت کے بغير دوسري شادي کرنا، نيکي اور معروف زندگي اور اسي طرح عدالت کے خلاف ہے

حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے جرمني کے «دويجلند فونک» ريڈيو سے بات چيت کرتے ہوئے فرمايا: «پہلي بيوي کي رضايت کے بغير دوسري شادي کرنا، نيکي اور معروف زندگي اور اسي طرح اس عدالت کے خلاف ہے جو قرآن ميں دوسري شادي کے لئے شرط کے طور پر بيان کي گئي ہے.»
آپ نے سرکار کي طرف سے پارليمنٹ کو ديے جانے والے کچھ ايسے بلوں (جن ميں مرد کو اجازت دي گئي ہے کہ پہلي بيوي کي اجازت کے بغير دوسري شادي کر سکے) پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمايا: «ہميں اميد ہے کہ ايسا قانون مجلس شوراي اسلامي ميں پاس نہ ہو اور ہم ہميشہ يہي دعا کرتے ہيں کہ اس قسم کے امور جن کو ہم خواتين کے حق ميں ظلم اور عدالت کے خلاف سمجھتے ہيں، کبھي بھي قانوني شکل اختيار نہ کر سکيں.»
آپ نے صراحت سے فرمايا کہ ہم تعدد زوجات کي مخالفت نہيں کرتے بلکہ ايک عورت پر ظلم اور اس کو آزار و اذيت پہنچانے کے مخالف ہيں، آپ نے فرمايا: «اگرچہ تعدد زوجات کا مسئلہ گذشتہ زمانوں ميں بعض قبائل ميں متعارف اور مروجہ رسم تھي جس کو خواتين بھي قبول کرتي تھيں ليکن کيونکہ آج يہ مسئلہ خواتين کي دل آزاري کا باعث ہے، اس وجہ سے پہلي بيوي کي اجازت لينا شرط ہے، اور في الواقع دوسري شادي، پہلي بيوي کے اختيار ميں ہے اور يہ عدالت کے عين مطابق ہے.» حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے فرمايا کہ اس قسم کے مسائل کے لئے قانون بنانے کي ضرورت نہيں ہوني چاہئے بلکہ قانون کے بغير بھي گھر ميں بيٹھ کر پہلي بيوي سے اجازت حاصل کرني چاہئے، آپ نے فرمايا: «خدا نخواستہ مجلس شوراي اسلامي، اس قانون کو پاس کر کے، موجودہ مشکلات خاص طور پر خواتين کي مشکلات ميں ايک نئي مشکل کا اضافہ نہ کر دے.»

عورت اور مرد کے تمام معاشرتي اور سياسي حقوق برابر ہيں، اور وہ اس طرح کہ خواتين بھي سياست ميں سب سے اونچے مقامات کو حاصل کر سکتي ہيں.
آپ نے اپني تقرير کے دوسرے حصے ميں فرمايا: «مرد اور عورت ايک دوسرے کے لئے آرامش اور سکون کا وسيلہ ہيں اور مرد کے وہ حقوق جو عورت پر واجب ہيں، عورت کے ايسے حقوق کے مقابلے ميں ہيں جو مرد پر واجب ہيں، کيونکہ بنيادي طور پر حقوق ايک دوسرے کے مقابلے ميں ہوتے ہيں، اور اگر ايک کے دوسرے پر حقوق ہوں اور دوسرے کے حقوق نہ ہوں تو يہ عدالت کے خلاف ہيں.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے حق ارث ميں موجود فرق جس پر قرآن کريم کي صراحت موجود ہے، کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمايا: «يہاں پر حقوق ميں فرق ہے ليکن عدالت کے خلاف نہيں ہے، اور ہم نے علمي مباحث ميں واضح کر ديا ہے کہ فرق عدالت کے خلاف نہ تو پہلے تھا اور نہ اب ہے اور اسلام ميں عورت اور مرد کے تمام معاشرتي اور سياسي حقوق برابر ہيں، اور وہ اس طرح کہ خواتين بھي سياست ميں سب سے اونچے مقامات کو حاصل کر سکتي ہيں.»
آپ نے آگے بڑھتے ہوئے اس سوال کے جواب ميں کہ اس کے با وجود کہ اسلام ميں عورت اور مرد کي برابري کا دعوي کيا جاتا ہے، ليکن آسماني اور اللہ تعالي کي طرف سے ديے جانے والے تمام مناصب اور عہدے جيسے کے پيغمبري اور امامت خواتيں کو نہيں ديے گئے، آپ نے جواب ديتے ہوئے فرمايا: «تاريخ کو کسي قانون کے سامنے نہيں لانا چاہئے. قانون ميں ميں اس برابري کو ايک کلي بيان سے واضح کر ديا گيا ہے اور اگر کہيں پر کوئي گڑبڑ ہے تو وہ ايک معاشرے کے کلچر ميں ہے نہ کہ قانون ميں.»
آپ نے مزيد فرمايا: «ايسے معاشرے ميں جہاں پر اپني بيٹيوں کو زندہ دفن کر ديا جاتا تھا، وہاں پر يہ کيسے توقع کي جا سکتي ہے کہ حضرت ختمي مرتبت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) آتے اور کسي خاتون کو کوئي منصب عطا کر ديتے؟ اس زمانے کے معاشرے ميں يہ چيز قابل قبول نہ تھي جيسا کہ آج بھي اتني آگاہي اور ترقي کے باوجود بعض لوگ دوسروں کے نظريات کو برداشت کرنے کے لئے تيار نہيں ہيں.»

تاريخ: 2007/12/05
ويزيٹس: 10956





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org