دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دين و سياست کے امتزاج سے مغرب کے خوف اور پريشاني کي اصلي وجہ يہ ہے کہ وہ واقعي اسلام سے آگاہ نہيں ہيں.
برازیل کے ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئےدين و سياست کے امتزاج سے مغرب کے خوف اور پريشاني کي اصلي وجہ يہ ہے کہ وہ واقعي اسلام سے آگاہ نہيں ہيں.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے برازيل ٹي وي سے بات چيت کرتے ہوئے فرمايا: «دين اور سياست کا آپس ميں جوڑ کوئي نئي بات نہيں ہے بلکہ اس سے پہلے بھي تمام الھي اديان ميں اس کا سابقہ پايا جاتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ موجودہ زمانے ميں صرف اس کي عملي صورت سامنے آئي ہے».
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے اميد ظاہر کرتے ہوئے کہ دوسرے اسلامي ممالک ميں بھي يہ مسئلہ محقق ہو، فرمايا: «سياست يعني کہ عوام کے مسئلوں اور ان کے امور کي تدبير کرنا اور ان کي خواھشات اور تمناؤں کا حکومت ميں خيال رکھنا اور يہ معني پوري انسانيت اور تمام حکومتوں ميں موجود ہے. صرف فرق اتنا ہے کہ الھي اديان جيسا کہ اسلام اور مسيحيت اور ديگر آسماني دين کوشش کرتے ہيں کہ اس تدبير کي کليات کو اپنے دينوں سے اخذ کريں ليکن باقي لوگ وہ چيز جو ان کي نظروں ميں صحيح ہو، اس کو اپني حکومتوں ميں مد نظر رکھتے ہيں».
آپ نے دين اور سياست ميں تلفيق اور امتزاج سے مغرب کے خوف کي اصل وجہ، ان کے واقعي اسلام سے بے خبري کو گردانا اور فرمايا: «جس اسلام کي ہم بات کرتے ہيں اور اس دين کي سياست سے تلفيق اور امتزاج کا اعتقاد رکھتے ہيں، وہ صلح اور آرامش کا اسلام ہے جو ظلم اور تجاوز سے مبرا ہے، عدالت اور علم و منطق کا اسلام ہے. اس اسلام سے کسي کو ڈرنے کي ضرورت نہيں ہے. لھذا ہم تاريخ ميں اپنے ديني بزرگوں اور اپنے رھبروں يعني کہ ائمہ معصومين عليھم السلام کي زندگيوں ميں ديکھتے ہيں کہ غير مسلمان بھي ان کے گھروں ميں کام کيا کرتے تھے اور غير مسلم لوگ بھي آپ حضرات سے بہت محبت رکھتے تھے».
عظيم الشأن مرجع تقليد نے فرمايا: «اس غلط فھمي کي دوسري وجہ بعض لوگوں کا کردار ہے جن کے قول اور عمل کي وجہ سے مغرب ميں اسلام سے خوف محسوس کيا جا رہا ہے. اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے وہ لوگ جو دہشت، دھماکوں، جيل اور شکنجوں کے حامي ہيں ان کو حکومت سے ہٹ جانا چاہئے اور جو لوگ عوام کے حامي ہيں ان کو حکومت ميں آنا چاہئے».
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے اس سلسلے ميں ميڈيا کي اہميت کا ذکر کرتے ہوئے يوں فرمايا: «تمام لوگ جو اھل بيان اور اھل قلم ہيں اور فکري فعاليتوں ميں مصروف ہيں ان کو چاہئے کہ انسانوں کو آپس ميں قريب لائيں، اس طرح کہ نہ مغرب والے اسلام سے خائف ہوں اور نہ ہي مسلمان مغرب سے گھبرائيں اور اميد کرتے ہيں کہ تمام لوگ مدد کريں گے کہ اسلامي اور انساني تھذيب معاشرے ميں نشو و نما حاصل کرے».
آپ نے فرمايا: «اسلام کي سياست يہ ہے کہ اقتدار والے ايسے عمل کريں کہ عوام ميں مقبول اور محبوب ہوں ليکن بعض لوگوں کي ناآگاہي اور آئندہ نگري کے فقدان اور بعض ديگر کي خودخواہي کي وجہ سے، دشمنوں کي يہ چال کامياب ہو رہي ہے کہ اسلام کو بدنما دکھايا جائے». تاريخ: 2006/05/22 ويزيٹس: 11313