Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دوسري دليل:

دوسري دليل: يہ ہے کہ، کہا جا سکتا ہے «احل اللہ البيع و حرم الربا» کي آيت صرف استہلاکي ربا پر ہي دلالت کرتي ہے نہ قدر متيقن پر جو پہلي دليل ميں بيان کيا گيا ہے. بلکہ ظہور اور دلالت کي بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ صرف استہلاکي ربا پر ہي دلالت کرتي ہے.
اس کي توضيح يوں ہے کہ، «احل اللہ البيع و حرم الربا» ايک استينافي جملہ ہے، نہ کہ اس سے ما قبل جملے کے لئے حال ہو. کيونکہ اگر يوں ہوتا تو اس کي ابتدا ميں ايک «قد» کا لانا ضروري ہوتا، کيونکہ جہاں پر بھي فعل ماضي کا جملہ، حال کے عنوان سے آتا ہے تو عربي زباں کے قواعد کے مطابق اس کي اقتضا يہ ہے کہ جملے کي ابتدا ميں ايک حرف «قد» لايا جائے اور کيونکہ اس آيت ميں يوں نہيں ہوا ہے تو يہ جملہ استينافي ہو گا. [1]
اس جملہ کے مستأنفہ يا حاليہ ہونے کي صورت ميں اس کے معني ميں فرق يوں ہے:
اگر جملہ حاليہ ہو تو اس آيت کا معني يوں ہو جائے گا: «وہ اس وجہ سے شيطان کے دھوکہ ميں آگئے کيونکہ کہتے تھے: "بيع، وہي سود ہے"، اس وقت جب اللہ تعالي نے بيع کو حلال اور سود کو حرام قرار ديا ہے».
يعني يہ دھوکہ اور ھلاکت، اس حکم کي تشريع کے وقت ہو گي، حالانکہ يہ دھوکہ اور ھلاکت اس تشريع سے پہلے اور اس کے بعد بھي ہے. ليکن اگر جملہ مستأنفہ ہو تو «احل اللہ البيع» کا معني، اپنے ما قبل سے مرتبط نہيں ہو گا.
تفسير المنار ميں آيا ہے کہ «واو» کو واو حاليہ قرار دے کر اس کے بعد والے جملے کو رباخواروں کے اعتراض کا جواب قرار دے سکتے ہيں جو يہ کہتے ہيں کہ بيع (ايسا ادھار جس کي قيمت نقدي معاملے سے بڑھ کر ہو) ربا کے مانند ہے[2]. بہر حال يہ جملہ مستأنفہ ہو يا حاليہ، رباخوروں کے اعتراضات کا جواب ہے. اور اس جواب کو دو طرح ديکھا جا سکتا ہے. ايک يہ کہ اللہ تعالي ان کو تعبدي جواب دے رہا ہے اور ان دونوں ميں فرق کو بيان کرنے کے درپي نہيں ہے. ليکن عام طور پر احکام کو بيان کرنے کے لئے يہ رويہ اختيار نہيں کرتا بلکہ قرآن کريم کي کوشش ہوتي ہے کہ احکام کو بيان کرتے وقت، اپنے مخاطبين کو قانع کرے. مثال کے طور پر جب روزہ کے وجوب کے بارے ميں حکم بيان کرتا ہے تو اس کے واجب ہونے کا فلسفہ بھي بيان فرماتا ہے:
«يا اَيُها الذين آمنوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ»[3]
اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہيں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہيزگار بنو.
يا جب حج کي بات کرتا ہے تو عوام کو اس کے منافع کے بارے ميں بھي بتاتا ہے:
«وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً»[4]
اور لوگوں پر خدا کا حق (يعني فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے.
اور ايک دوسري آيت ميں يوں آيا ہے:
«لِيَشْهَدُواْ مَنـافِعَ لَهُمْ...»[5]
تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں.
اور جب نماز کے واجب ہونے کا حکم ديتا ہے تو اس کے اصلي فلسفے کو بھي بيان فرماتا ہے يعني منکرات اور فحشاء کي روک تھام کرنا:
«وَ أَقِمِ الصَّلَوةَ إِنَّ الصَّلَوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنكَرِ»[6]
اور نماز کے پابند رہو، کچھ شک نہيں کہ نماز بےحيائي اور بري باتوں سے روکتي ہے.
اس مقدمہ سے يہ استنتاج کيا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالي نے بيع اور ربا کے درميان فرق کو پانے کے لئے خود لوگوں کو اپنے ارتکاز پر رجوع کرنے کو کہا ہے، اس کا مطلب يہ ہے کہ خود لوگ يہ سمجھ سکتے ہيں کہ اگر کسي چيز کو کچھ زيادت کے ساتھ ادھار کے طور پر بيچيں يا اگر کچھ رقم قرضہ کے طور پر کسي کو ديں اور ابتداء سے ہي اس کے ساتھ يہ شرط طے کريں کہ واپسي پر موجودہ رقم سے زيادہ واپس لوٹاني ہو گي اس صورت ميں اور اس دوسري صورت ميں جہاں پر قرضہ لينے والا شخص، اپنا قرضہ واپس نہ لوٹا سکتا ہو اور اس کو مہلت دينے کے لئے کچھ مزيد رقم طلب کي جائے، ان دو صورتوں ميں فرق ہے. کيونکہ دوسري صورت قبيح اور منکر ہے ليکن پہلي صورت يوں نہيں ہے.
پہلي صورت ميں، ايسا معاملہ ہے جو زندگي کي ضرورت ہے، کيونکہ کوئي بھي شخص اپني زندگي کي تمام ضروريات کو اکيلا پورا نہيں کر سکتا بلکہ اپني ضروريات کو اشياء کے تبادلے سے (جو پرانے زمانوں ميں اسي چيز کا رواج تھا) يا اشياء کو رائج سکہ کے مقابلے ميں تبادلہ کرنے سے(جو مترقي طريقہ مانا جاتا ہے) پورا کرتا ہے. چنانچہ حضرت امام خميني (قدس سرہ) نے خيار حيوان کي روايات سے نتيجہ اخذ فرمانے کے وقت معاملات ميں اس تطور اور تحول کي طرف اشارہ فرمايا ہے.[7]
انساني تہذيب اور تمدن کي ترقي کے لئے يہ معاملات بہت ضروري ہيں.
ليکن دوسري قسم ميں ايسا سود ہے جو ضعيف شخص کي غربت اور ناداري اور اس کے فقر سے غلط استفادہ کيا جا رہا ہے، اور قرضہ دينے کے مقابلے ميں اس سے سود طلب کيا جا رہا ہے. اس قسم کے اعمال نہ صرف انساني تہذيب کي ترقي ميں مدد گار نہيں ہيں بلکہ اس کي ترقي ميں رکاوٹ اور حائل بن جاتے ہيں.
اس وضاحت سے پتا چلا کہ يہ آيت استہلاکي ربا کي حرمت پر دلالت کرتي ہے اور توليدي اور انتاجي ربا کو ہرگز شامل نہيں ہے.
ثالثاً يہ بھي کہا جا سکتا ہے کہ: سورة بقرة کي آيت ميں آگے جا کر ربا کي حرمت کي دليل کو ظلم بيان کيا گيا ہے:
«يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبَواْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ*فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْب مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَ لِكُمْ لاَ تَظْـلِمُونَ وَلاَ تُظْـلَمُونَ»[8]
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ايمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقي رہ گيا ہے اس کو چھوڑ دو * اگر ايسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تيار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپني اصل رقم لينے کا حق ہے جس ميں نہ اوروں کا نقصان ہے نہ تمہارا نقصان.
لہذا حرمت کي وجہ ظلم ہے. اور يہ ظلم استہلاکي ربا ميں متصور ہے، ليکن استنتاجي اور توليدي ربا ميں يوں نہيں ہے.
دوسرے الفاظ ميں، قرآن فرماتا ہے کہ ربا عرفي اور عقلائي ظلم ہے اور اگر توبہ کر لي تو صرف اصلي سرمايہ لے سکتے ہيں نہ کہ اس سے زيادہ. کيونکہ اپنے سرمايہ سے زيادہ مال لينا ظلم ہو گا.
دوسري دليل: يہاں تک تين طريقوں سے قرآن کريم کي آيات سے صرف استہلاکي ربا کي حرمت پر دلائل ذکر کي ہيں جو استنتاجي ربا کي حرمت پر دلالت نہيں کرتيں.
اب اس سلسلے ميں روايات کي تحقيق پيش کرتے ہيں.
روايات ميں بھي اجمال موجود ہے کيونکہ جو روايات ربا کي حرمت پر دلالت کرتي ہيں دو قسم کي ہيں:

پہلي قسم
وہ روايات جو مکيل (ناپے جانے والي) اور موزون (تولے جانے والي) اشياء ميں سود کي حرمت پر دلالت کرتي ہيں.
1. صحيح روايت ميں زرارہ، امام صادق عليہ السلام سے روايت کرتا ہے، آپ فرماتے ہيں:
«لا يكون الرّبا إلافيما يكال أو يوزن»[9]
مکيل اور موزون اشياء کے علاوہ دوسري چيزوں ميں سود نہيں ہوتا.
2. موثق روايت ميں عبيد بن زرارہ کہتا ہے کہ ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا ہے کہ :
«لايكون الرّبا إلا فيما يكال أو يوزن»[10]
مکيل اور موزون اشياء کے علاوہ کہيں پر بھي سود نہيں ہے.
3. منصور بن حازم سے موثق روايت ميں يوں آيا ہے:
«سألته عن الشاة بالشاتين، والبيضة بالبيضتين، قال: لابأس ما لم يكن كيلا أو وزناً»[11]
ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے ايک کے مقابلے ميں دو گوسفند اور ايک انڈے کے مقابلہ ميں دو انڈوں کے لين دين کے بارے ميں دريافت کيا. آپ نے فرمايا: «اس ميں کوئي حرج نہيں، جب تک کہ مکيل يا موزون نہ ہوں».
يہ روايات قرضي ربا پر دلالت نہيں کرتيں اور معاملاتي ربا کے بارے ميں بھي اجمال رکھتي ہيں، يعني معلوم نہيں کيا ان سے نقدي صورت مراد ہے يا ادھار يا دونوں صورتيں؟ دوسرے الفاظ ميں يہ روايات حصر کو بيان کر رہي ہيں، نہ کہ محصور کو اور اس لحاظ سے ان ميں کوئي اطلاق نہيں ہے. اس بات سے ہٹ کر کہ يہ مکيل اور موزون اشياء کے علاوہ دوسري چيزوں ميں ربا کي نفي کرتي ہيں، حالانکہ دوسري چيزوں ميں بھي ربا کا تصور کيا جا سکتا ہے اور (حقيقت يہ ہے کہ) ان چيزوں کے موارد مکيل اور موزون موارد سے کئي گنا زيادہ ہيں اس کا نتيجہ يہ بنتا ہے کہ يہ روايات معاملاتي ربا کو حرام قرار ديتي ہيں اور ان ميں سے مکيل اور موزون کے علاوہ دوسري چيزوں کو مستثني قرار ديتي ہيں اور کيونکہ يہ موارد بہت زيادہ ہيں اس لئے تخصيص اکثر لازم آتي ہے اور يہ مستہجن ہے.
اگر کہا جائے کہ يہ روايات مقام «حکومت»[12] ميں ہيں، يعني تعبداً غير مکيل اور غير موزون کو ربا نہيں سمجھتيں، تو يہاں پر کہيں گے کہ في الواقع «حکومت» تخصيص ہے (جہاں پر موضوع ميں تعبدي طور پر تضييق اور تعميم کي جاتي ہے) اور وہ اشکال ويسا ہي باقي رہ جاتا ہے. اس کے علاوہ، قرآن اور روايات کي صراحت جو ربا کي حرمت کو بہت بڑا سمجھتي ہيں، اور اس کو اللہ تعالي سے جنگ کرنا قرار ديا ہے، اس کے ايک درہم کو اپنے محارم کے ساتھ ستر بار زنا کرنے سے زيادہ شديد قرار ديا ہے، يہ سب ايسي تخصيص کي متحمل نہيں ہو سکتيں، دوسرے الفاظ ميں يہ روايتيں قرآن کريم اور قطعي سنت سے تعارض رکھتي ہيں.
اس کے علاوہ، مکيل اور موزون لين دين ميں، اگر ماليت ميں اضافہ نہ ہو، چاہے ان کي مقدار ميں فرق ہي کيوں نہ ہو، تو عوام اس کو ظلم يا منکر نہيں سمجھتے اور يہ تجارت ميں رکاوٹ کا موجب نہيں ہے.
معاملاتي ربا کي روايات کے بارے ميں ان اشکالات کو مد نظر قرار ديتے ہوئے، ان روايات کو اس زمانے کے عيني وقائع پر حمل کرنا چاہئے يا ان کے بارے ميں توقف کرنا چاہئے اور اس کے علم کو اس کے اہل لوگوں پر چھوڑ دينا چاہئے.
دوسري قسم
ربوي قرضہ کي حرمت کے بارے ميں روايات
1. حفص بن غياث، نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت کي ہے:
«الرباء رباءآن: أحدهما حلال، والآخر، حرام، فأمّا الحلال فهو أن يقرض الرجل قرضاً طمعاً أن يزيده ويعوّضه بأكثر ممّا أخذه بلا شرط بينهما، فإن أعطاه أكثر مما أخذه بلا شرط بينهما فهو مباح له وليس له عند الله ثواب فيما أقرضه، و هو قولهu: «فلا يربوا عند الله»، وأما الربا الحرام فهو الرجل يقرض قرضاً ويشترط أن يردّ أكثر ممّا أخذه فهذا هو حرام.»[13]
حضرت امام صادق عليہ السلام سے ايسے آدمي کے بارے ميں دريافت کيا گيا جس نے گن کر (شمار کر کے) ايک سو درھم قرضہ ليا تھا ليکن واپسي کے وقت درھموں کو تول کر واپس ديا (جو ايک سو سے زيادہ بن رہے تھے)، آپ نے فرمايا: «اگر کوئي شرط نہيں لگائي گئي تو کوئي حرج نہيں ہے. ربا شرط لگانے سے آتا ہے. في الواقع شرط ہي ربا کو حرام کر ديتي ہے.»
اس قسم کي روايات ميں بھي مصداق اور مراد کو معين نہيں کيا گيا ہے، خاص طور پر يہ کہ اس زمانے ميں صرف استہلاکي ربا ہي لوگوں ميں رائج تھا.
ربا کي دو قسميں ہيں: حلال اور حرام. حلال ربا وہ ہوتا ہے جو قرضہ ديا جائے، اس اميد کے ساتھ کے اس سے زيادہ واپس ملے گا بغير اس کے کہ کوئي شرط ان کے درميان رکھي گئي ہو. اس صورت ميں اگر اس کو زيادہ واپس پلٹايا جائے، حالانکہ ان کے درميان کوئي شرط طي نہيں پائي تھي، يہ صورت مباح ہے اور اس قرضے کا اللہ تعالي کي طرف سے کوئي اجر اور ثواب نہيں ملے گا. اور يہ وہي قرضہ ہے جس کے بارے ميں اللہ تعالي نے قرآن کريم کے اندر ارشاد فرمايا ہے «اللہ تعالي کے ہاں زيادہ نہيں ہوگا».
ليکن حرام ربا وہ ہے کہ قرضہ ديا جائے اور شرط لگائي جائے کہ قرضے کي مقدار سے زيادہ واپس لوٹايا جائے گا، يہ حرام ربا ہے.
2. صحيح روايت ميں خالد بن حجاج سے يوں نقل کيا گيا ہے:
«سألتُه عن الرجل كانت لى عليه مئة درهم عدداً قضانيها مئة وزناً، قال: لابأس ما لم يشترط، قال: وقال: جاء الربا من قبل الشروط، إنّما يفسده الشروط.»[14]
حضرت امام صادق عليہ السلام سے ايسے آدمي کے بارے ميں دريافت کيا گيا جس نے گن کر (شمار کر کے) ايک سو درھم قرضہ ليا تھا ليکن واپسي کے وقت درھموں کو تول کر واپس ديا (جو ايک سو سے زيادہ بن رہے تھے)، آپ نے فرمايا: «اگر کوئي شرط نہيں لگائي گئي تو کوئي حرج نہيں ہے. ربا شرط لگانے سے آتا ہے. في الواقع شرط ہي ربا کو حرام کر ديتي ہے.»
اس قسم کي روايات ميں بھي مصداق اور مراد کو معين نہيں کيا گيا ہے، خاص طور پر يہ کہ اس زمانے ميں استہلاکي ربا ہي لوگوں ميں رائج تھا، لہذا ان روايات کو قرضہ کے تمام قسموں کے ربا پر تعميم دينے کي کوئي توجيہ نہيں ہے.

حوالہ جات:
--------------------------------------------------------------------------------
[1] . الميزان في تفسيرالقرآن، ج 2، ص 415
[2] . المنار، ج 3، ص 107
[3] . سورة بقرہ، آيت 183
[4] . سورة آل عمران، آيت 97
[5] . سورة حج، آيت 28
[6] . سورة عنکبوت، آيت 45
[7] . ديکھئے، کتاب البيع، ج 4، ص 263- 264
[8] . سورة بقرہ، آيت 278- 279
[9] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 132-133 (ابواب الربا، ب 6، ح 1)
[10] . سابقہ حوالہ، (ح 3)
[11] . سابقہ حوالہ، (ح 5)
[12] . «حکومت» علم اصول کي اصطلاح ہے جس کا مطلب ايک روايت کو دوسري روايت پر حاکم قرار ديا جاتا ہے. ]مترجم
[13] . سابقہ حوالہ، ص 160، (ح 1)
[14] . سابقہ حوالہ، ص 190-191 (ح 1)
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org