|
چھٹي دليل:
ربا کي حرمت والي روايات ميں اس کے حرام ہونے کے علل اور اسباب کو بيان کيا گيا ہے جو انتاجي ربا پر منطبق نہيں ہوتيں.
بعض روايات نے اس کي حرمت کا سبب، اقتصادي اور معاشي مندي اور لين دين کے خاتمہ کو قرار ديا ہے. وسائل الشيعہ ميں يوں آيا ہے: «هشام بن الحكم، أنه سأل أبا عبدالله(عليه السلام)عن علّة تحريم الربا، فقال: انه لو كان الربا حلالا لترك الناس التجارات وما يحتاجون إليه فحرّم الله الرّبا لتنفر الناس من الحرام إلى الحلال وإلى التجارات من البيع والشراء، فيبقى ذلك بينهم فى القرض.»[1] ھشام نے ربا کي حرمت کے بارے ميں حضرت امام صادق عليہ السلام سے استفسار کيا، آپ نے فرمايا: «اگر ربا حلال ہوتا تو لوگ لين دين اور معاملات کو ترک کر ديتے، اللہ تعالي نے اس کو حرام قرار ديا ہے تا کہ لوگ حرام کو چھوڑ کر حلال کي طرف اور لين دين اور خريد و فروخت کي طرف مائل ہوں.» اسي طرح زرارہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمايا: «إنما حرّم اللہ الرّبا لئلاّ يذهب المعروف.»[2] «اللہ تعالي نے ربا کو اس لئے حرام قرار ديا ہے تا کہ معروف کا خاتمہ ہي نہ ہو جائے» اور يہ بہت واضح ہے کہ توليدي اور انتاجي ربا نہ صرف اقتصادي اور معاشي مندي کا باعث نہيں ہے بلکہ اس کي رونق اور ترقي اور اسي طرح توليد ميں معاون بھي ہے. ممکن ہے کہا جائے کہ وہ چيز جو روايات ميں بياں کي گئي ہے وہ حرمت کي حکمت ہے نہ کہ علت اور وجہ. اور حکمت وہ ہوتي ہے جس کے وجود سے حکم ثابت ہو جاتا ہے ليکن اس کے فقدان سے حکم کا فقدان لازم نہيں ہوتا. (جواب ميں کہيں گے) پہلي بات تو يہ ہے کہ حروف تعليل (جيسا کہ انما، ل، لاَنَّ، لئلاّ) عليت ميں ظہور رکھتے ہيں نہ کہ حکمت کو بيان کرنے ميں. علم اصول کے علماء جب تنقيح مناط کے بارے ميں گفتگو کرتے ہيں تو ادات تعليل کے وجود کو قطعي طور پر مناط کي موجوديت پر دليل قرار ديتے ہيں. القوانين ميں ميرزاي قمي لکھتے ہيں: «قرآن کريم اور سنت سے وضعي لفظي اور التزامي دلالتوں (جيسے تنبيہ اور ايماء) سے عليت مستفاد ہوتي ہے. اور ان ميں سے ہر ايک دلالت کا خفا اور ظہور کے لحاظ سے ايک خاص رتبہ ہے. وضعي لفظي دلالت جيسے: لعلہ کذا، لاَجل کذا، لاَنّہ کذا، کي يکون کذا، اذن يکون کذا و ... اور اس سے نازل مرتبہ «لام» اور «باء» کا ہے. ليکن يہ دونوں بھي عليت ميں ظہور رکھتے ہيں.»[3] دوسري بات يہ کہ جس طرح پہلے بياں ہو چکا ہے، ہر قسم کي اضافات اور زيادت کو حرام نہيں قرار ديا جا سکتا. لہذا روايات مجمل ہيں اور ان ميں قدر متيقن وہي استہلاکي ربا ہي ہے اور ان (روايات) سے اس سے زيادہ کچھ نہيں استفادہ کيا جا سکتا. تيسري بات يہ کہ اگر فرض بھي کر ليا جائے کہ روايات مجمل نہيں ہيں اور جو چيز (روايات ميں) بيان کي گئي ہے وہ حکمت ہي ہو نہ کہ علت، تو بھي انصراف کا دعوي کيا جا سکتا ہے. کيونکہ اس زمانے ميں متعارف اور مروجہ ربا، صرف استہلاکي ربا ہي ہوتا تھا لہذا اس سے زيادہ پر کوئي دلالت نہيں ہے. چوتھي بات يہ کہ انتاجي ربا کو حرام قرار دينا، عين اور نص قرآن کي مخالفت ہے، کيونکہ ربا کي حرمت والي آيت ميں ظلم کو علت بتايا گيا ہے اور اگر کوئي روايت قرآن کريم سے مخالفت رکھنے والے قانون پر مشتمل ہو تو يا اس کو بالکل ترک کر دينا چاہئے يا اس کي توجيہ کرني چاہئے. اس کے علاوہ انتاجي ربا کو حرام قرار دينا عقل کي مخالفت بھي ہے کيونکہ عقل اس قسم کي زيادت اور اضافہ کو سراحتا ہے. -------------------------------------------------------------------------------- [1] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 120 (ح 8) [2] . سابقہ حوالہ، ص 120 (ح 10) [3] . القوانين المحکمة، ج 2، ص 80
|