|
پيش لفظ
قال الامام محمد الباقر عليہ السلام:
«ان اللہ تبارک و تعالي لم يدع شيئاً يحتاج اليہ الامة الا انزلہ في کتابہ و بينہ لرسولہ و جعل لکل شئي حداً و جعل عليہ دليلاً يدل عليہ و جعل علي من تعدي ذلک الحد حداً» حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: «خداوند عالم نے ہر ايسي چيز کو جو امت کو ضرورت تھي، قرآن ميں نازل کر ديا ہےـ اور اپنے رسول (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کو بتا ديا ہے اور ہر چيز کے لئے ايک حد مقرر کر کے اس پر دليل بھي قائم کي ہے تا کہ وہ اس کي رہنمائي کرے اور جو شخص اس حد سے تجاوز کرنا چاہے تو اس کے لئے بھي ايک حد معين کر دي ہے» (اصول کافي، ج1/ص59) اس ميں کوئي شک نہيں کہ اسلام نے دين خاتم کے عنوان سے، جيسا کہ اس روايت شريف ميں آيا ہے، انفرادياور اجتماعي زندگي ميں انسان کي تامم ضرورتوں کا جواب ديا ہے، قرآن و سنت، ايک سعادتمند معاشرہ کے امور ميں انسان کي تمام ضرورتوں کو پورا اور اس کي ہدايت کرنے والے دو بنيادي مأخذ کي حيثيت سے شمار ہوتے ہيں، ہر چيز کي حد، معين ہے اور کتاب و سنت ميں بيان ہوئي ہے، اسي دليل کي بناپر خدا نے اپنے دين کو قافلہ بشريت کي ضرورتوں کو پورا کرنے والا قرار ديا ہے، اسي دليل کي بناپر اس نے، احکام و فرائض اور حدود کو بھي معين کيا ہے. . لہذا جن لوگوں نے الہي سرحدوں اور شرعي حدود کو ناديدہ قرار دے کر پاؤں کے نيچے کچل ڈلا ان کے لئے بھي الہي شريعت ميں خاص احکام بيان ہوئے ہيں. فقہ کي تاريخ کے دوران برابر فقہائے اسلام کي تمام تر کوششيں اس نکتہ پر متمرکز رہي ہيں کہ اجتہاد و استنباط کے اصول اور قوانين کے دائرہ ميں رہ کر وہ حدود الہي، احکام شريعت، انسان کے فرائض اور حقوق کو بيان کريں. شيعہ فقہ کي تاريخ اور ہزاروں فقہي کتاب و رسالے اس حقيقت پر واضح ثبوت ہيں کہ شيعہ فقہا (رضوان اللہ عليھم) نے ہر دور ميں، اس کي ضرورتوں کے تحت، سماج سے جڑے رہنے اور اپني ذمہ داريوں کے باعث تبليغ دين، ابلاغ شريعت اور فقہ و فقاہت کي حيات کي ضرورتوں کو پورا کرنے پر کمر ہمت باندھي ہے اور دقيق اور بہترين استاد و مباحث حوزات علوم اسلامي ميں فقہ کے درس سے مختص کئے ہيں اسي مناسبت سے دوسرے علوم جو فقاہت کے باب ميں دخيل ہيں جيسے اصول فقہ، تراجم و رجال اور حديث شناسي کو تعميق اور وسعت دي گئي ہے لاکھوں حوزہ درس تشکيل دئے گئے ہيں اور ہزاروں کتابيں تاليف ہوئي ہيں فقہي آثار کا کافي حصہ مقلدين اور اسلامي علوم سے دلچسپي رکھنے والے افراد کي متعدد درخواستيں اور سوالوں سے وجود ميں آيا ہے. شرعي سوال و جواب کے صدہا مجموعے، صديوں سے مثلاً شيخ صدوق، شيخ مفيد، سيد مرتضي اور شيخ طوسي کے زمانے سے لے کر اب تک موجود ہيں اور يہ ان نزديک روابط کا ثمرہ ہيں کہ جو ديندار لوگوں اور حوزات علميہ و شيعہ مرجعيت کے درميان قائم رہے ہيں اور علماء کي طرف کثرت سے رجوع کرنے پر دليل ہيں. حاليہ چند صديوں ميں بہت ہي پر اہميت متعدد مجموعے مرتب ہوئے ہيں، جيسے: ميرزائے قمي کي کتاب «جامع الشتات» اور ميرزائے شيرازي کي «مجمع المسائل» و غيرہ جو شيعہ مرجعيت اور متدين و پابند شريعت افراد کے درميان علمي رابطہ کے قائم رہنے کي عکاسي کرتا ہے جو ہميشہ سے ويسے ہي جاري ہے يہ چھوٹے بڑے صدہا رسالوں کے قريب، فقہي احکام اور شرعي مسائل کي شرحيں ہيں جن کي اسلامي معاشرہ برابر درخواست کرتا رہا ہے. دوسري طرف ديني معاشرہ اور مختلف سماجي گروہوں کي متعدد ضروريات فطري طور پر مختلف لوگوں کے درميان شرعي احکام اور ديني مسائل کي مناسب طريقہ سے نشر و اشاعت کرنے کي اقتضاء کرتي ہيں خصوصاً اگر نئے مسائل کہ جن کو «مسائل مستحدثہ» کے عنوان سے ياد کيا جاتا ہے، جديد فقہي فتاوي? اور نظريوں کے پيرائے ميں صادر ہوتے ہوں يا شيعوں ميں مستمر فعال اجتہاد کي اقتضاء اور مصدر مرجعيت، فقيہ کي فقہي تلاش و قدرت کے باعث (کہ ہميشہ اس طرح فقہي اصول کے دائرہ ميں شيعہ فقہاء کا اہتمام تھا اور ہے) جديد فتاوي? اور نظريوں کے مطابق نئے مسائل بيان ہوتے ہوں اور مجتہد کي رائے پرانے مسائل کي نسبت بدل گئي ہو. اس ميں شک نيں کہ شيعي فقاہت اور حوزہ اجتہاد ميں رائے اور فتوؤں کا بدل جانا آغاز سے اب تک جاري رہا ہے اور ايک مجتہد نے نہ تنہا چند کتابوں کي ترتيب دينے اور تاليف کرنے کے دوران بلکہ کبھي تو ايسا بھي ہوا ہے کہ اس نے فقہي کتاب لکھنے کے دوران اپني رائے بدلنے ميں ہي خير سمجھي ہے شيعہ فقہ اور فقاہت کي زندگي و حيات کي روشن نشاني اور ايک فقيہ کے اجتہاد کي نشاط اور جولان فکري دلالت کرتي ہے کہ فقيہ برابر اپنے آپ کو فقہ و فقاہت کے اصول کي بنياد پر استنباط احکام کے لئے دليليں تلاش کرنا اور اس کي پيروي کرنے کو ضروري سمجھتا ہے يعني وہي کہ جس کو حاليہ چند سالوں ميں «اجتہاد جواہري» کے عنوان سے ياد کيا جاتا ہے اور جو صحت، دقت، جامعيت اور موازين کے ساتھ تطبيق کو شامل اور استنباط کے اصيل منابع ميں سے ہے. جيسا کہ اجتہاد کي تعريف ميں کہا گيا ہے: اجتہاد، استنباط کے لئے نہايت درجہ فقيہ کي تلاش و کوشش اور تمام تفصيلي ادلہ سے احکام شرعي کو حاصل کرنے کا نام ہے جو لوگ حتي استدلالي کتب فقہ سے تھوڑي سي آشنائي رکھتے ہيں، بخوبي جانتے ہيں کہ ايک فقہي مسئلہ ميں دو يا چند نظريوں کا پايا جانا، اسلام کے بزرگ فقہاء، مثلاً شيخ طوسي، محقق حلي اور دونوں شہيدوں و غيرہ کے لئے ايک معمولي سي بات شمار کي اجاتي ہے. صرف گراں قيمت کتاب «مفتاح الکرامہ» کے چند صفحات کا مطالعہ کرنا کہ جہاں ہر مسئلہ ميں فقہاء کے اقوال و فتوؤں سے بحچ کي گئي ہے، اس حقيقت پر گواہ ہے اور اس (ايک مسئلہ ميں ايک فقيہ کي دو نظريہ رکھنا يا پہيل نظر سے عدول کرنا) کو شيعہ فقہ سے امتيازات بلکہ افتخارات ميں شمار ہونا چاہئے. طبيعتاً ان کا آخري نظريہ دقيق و محقق ترين نظريہ شمار ہوتا ہے. يہ مجموعہ، جو آپ کے سامنے ہے اس ميں قادر فقيہ حضرت آية اللہ العظمي حاج شيخ يوسف صانعي (دام ظلہ) کے بعض آخري فقہي نظريوں اور فتوؤں کي طرف اشارہ کيا گيا ہے جو اگرچہ مشہور کے فتوؤں سے تمايز رکھتا ہے بلکہ بعض ايسے فتوے ہيں جن پر اجماع کا دعوي بھي کيا گيا ہے ليکن ان ميں سے ہر ايک مسئلہ دسيوں گھنٹے مطالعہ، دليلوں کي تحقيق و تدقيق، فقہ و فقاہت کے اصول کے دائرے ميں فقہي متون پر نظر ثاني اور شہرت کي جابريت کو قطع کرنے پر توجہ اور عنايات کا ما حصل ہے وہ قابل توجہ فتوے کہ جن ميں معظم لہ کي رائے تبديل ہو گئي ہے، مندرجہ ذل موارد ميں ان کي طرف اشارہ کيا جا سکتا ہے: - کفار کي طہارت، سوائے ان کے کہ جو ديني لحاظ سے دشمني اور عناد رکھتے ہوں. - حکم ارتداد ميں تفصيل ان لوگوں کے درميان کہ جن کا اسلام سے انکار حضرت رسول خدا(ص) اور مسلمانوں کي توہين کا باعث ہوتا ہو اور ان لوگوں کے درميان کہ جن کا انکار اسلام کے بارے ميں تحقيق و تفحص کي وجہ سے ہو. - غنا و موسيقي کي حرمت کا انحصار خود اس کي محتوا پر ہے نہ کہ نفس صوت و غنا پر منحصر ہو. - استنتاجي ربا کا حرام نہ ہونا. - قصاص ميں مسلمان و کافر کے درميان مساوات. - قتل شبہ عمد اور خطا ميں مرد و عورت کي ديت مساوي ہے. اس ميں قتل و غير قتل دونوں شامل ہيں. - مثل سے مثل کے مقابلہ ميں قصاص کا ہونا اور مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو قتل کرنے کے قصاص ميں کسي فرق کي عدم ضرورت، مرد و عورت دونوں پر ظلم واقع ہونے ميں عدم تبعيض. - قاضي کے يہاں اجتہاد کي عدم شرطيت، مسائل قضا پر علم کا کفايت کرنا اگرچہ تقليد کي بںا پر ہو اور ولايت امر، مرجعيت، فقاہت اور قضاوت ميں عدم شرطيت ذکوريت. آخري چند سالوں ميں حضرت آيت اللہ العظمي شيخ يوسف صانعي کے بہت سي کتابيں اور رسالے طبع ہوئے ہيں، ان ميں سے ہر ايک مقلدوں اور دلچسپي رکھنے والوں کي درخواستوں اور ضرورتوں کا جواب ہے. «توضيح المسائل» کے علاوہ جو اب تک بارہا طبع ہو چکي ہے، کتاب «مجمع المسائل» ہے شرعي سوال و جواب کے ميدان ميں ايک گرانقدر اور اہم مصدر کي حيثيت رکھتي ہے، يہ کتاب کہ جس کي پہلي جلد دو ہزار سے زيادہ استفتائات کو شامل ہے اور اب تک کئي مرتبہ چھپ چکي ہے معظم لہ کے جوابات کا ايک وسيع ترين مجموعہ ہے کہ جو ہزاروں استفتائات سے انتخاب کے بعد «توضيح المسائل» کي صورت ميں ترتيب ديا گيا ہے. مرجع عاليقدر جو حضرت امام خميني (قدس سرہ) کے برجستہ شاگردوں ميں سے ہيں انہوں نے اپني کتاب «مجمع المسائل» ميں اپنے شيوہ معمول اور بہت سے موارد کي مناسبت سے بعض مورد نظر کي طرف بطور اجمال اشارہ کيا ہے کہ جو دلچسپي رکھنے والوں کے سوال کے لئے راہ گشا بھي ہو سکتي ہيں جيسا کہ جواب دينے کي تاريخوں کا بيان کرنا بھي اس مجموعہ کي ايک خصوصيت ہے. (ترجمہ ميں ان تاريخوں کو نقل نہيں کيا گيا ہے. مترجم). 1200 صفحات پر مشتمل «توضيح المسائل» اور مجمع المسائل کا معظم لہ کے فتوؤں کے بنيادي مصدر کے عنوان سے طبع ہونا مستغني کرنے اور اہم ہونے کے باوجود بہت سے ضرورت مندوں کے ان دونوں کتابوں سے منتخب آسان مسائل فتوؤں کي کمي کا احساس باقي تھا. «منتخب الاحکام» کے عنوان سے جو مجموعہ آپ ک ہاتھوں ميں ہے، اسي ضرورت کو پورا کرنے کي خاطر مرتب ہوا ہے، يہ مجموعہ کہ جس کي ترتيب اور انتخاب سب سے پہلے معظم لہ کے بعض فاضل شاگردوں کے ذريعہ عمل ميں ايا ہے اور پھر معظم لہ کي نظروں سے گزرا، آپ نے بعض مسائل کي خاميوں کو درس کر ديا ہے. لہذا، مرجع عاليقدر کے جديد ترين فقہي آراء اور شرعي فتوؤں کو اس ميں بيان کيا گيا ہے کہ جن ميں بعض کے متعلق اس سے پہلے اشارہ بھي ہو چکا ہے. خداوند عالم سے حوزات علميہ کي علمي نشاط و دائمي عزت، شيعہ مرجعيت اور مرجع عاليقدر کي سلامتي کے بارے ميں دعا کرتے ہيں اور ہماري آرزو يہ ہے کہ يہ «منتخب الاحکام» کا مجموعہ ان عزيزوں اور دلچسپي رکھنے والوں کي چاہت کا جواب دہ ہو ہ جو معظم لہ کے شرعي جوابات اور فقہي فتوؤں کا ايک اہم اور کارآمد ترين «منتخب مسائل» کا مسودہ چاہتے ہيں. ان شاء اللہ ناشر
|