|
قرض کے احکام
قرض دینا مستحبی کاموں میں سے ہے جس کے متعلق احادیث اور آیات میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان ہوئی ہے کہ جو بھی اپنے مسلمان بھائی کو قرض دے اس کا مال زیادہ ہو جاتا ہے اور ملائکہ اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اپنے مقروض شخص سے مہربانی سے پیش ائے تو حساب کے بغیر تیزی کے ساتھ پل صراط پر سے گزر جائے گا اور جس شخص سے اس کا مسلمان بھائی قرض چاہئے اور وہ نہ دے تو بہشت اس پر حرام ہو جاتی ہے.
مسئلہ ۴٩۶. اگر قرض میں شرط کر لیں کہ ایک معین وقت میں اسے ادا کرے تو وقت آنے سے پہلے ضروری نہیں ہے قرض دینے والا قبول کرے لیکن اگر وقت معین کرنا صرف مقروض شخص کے ساتھ ہمراہی کے لئے ہو تو اگر وقت سے پہلے بھی دیدے تو قبول کر لینا چاہئے. مسئلہ ۴٩٧. اگر مقروض شخص کے پاس سوائے اس گھر کے جس میں وہ رہتا ہے اور جو اثاثہ اس کی ضرورت کا اس گھر میں ہے اس کے علاوہ کوئی چیز اس کے پاس نہ ہو تو صاحب قرض مقروض شخص سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کر سکتا بشرطیکہ مقروض نے یہ گھر اور اپنی ضرورت کا سامان صاحب قرض کے مال سے نہ خریدا ہو یا یہ کہ اس کے مال کی وجہ سے ہی وہ یہ چیزیں بنا نہ سکا ہو اور اس کا فقر بھی تجارت اور معاملات میں افراط وتفریط کی وجہ سے نہ ہو بلکہ قرض خواہ کو چاہئے کہ صبر کرے تا کہ وہ اس کا قرض ادا کر سکے. مسئلہ ۴٩٨. ایک شخص کچھ لوگوں کا مقروض ہے اور اس کے پاس کچھ مال بھی ہے اور صاحبان قرض نے اپنے مال کا مطالبہ بھی کیا ہے تو یہ مال صاحبان قرض میں سے کسی کو دیدے کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ان کے درمیان تقسیم کرے تو بہتر ہے اسی طرح مفلس جب تک حاکم شرع اسے مجبور نہ کرے جو مال اس کے پاس ہے وہ جس صاحب قرض کو بھی دیدے کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان دونوں صورتوں میں بقیہ صاحبان قرض کو نقصان پہنچانے کا قصد نہیں ہونا چاہئے ورنہ اسکی مالکیت قاعدہ لاضرر کے تحت محکوم ہے. مسئلہ ۴٩٩. جو شخص دیوالیہ ہو گیا ہے اس سے کوئی شخص طلبگار ہے لیکن اس کا عین مال(مقروض کے پاس) موجود ہے تو وہ شرعاً عین مال کو مقروض شخص سے واپس لے سکتا ہے یا اپنے قرض کی بہ نسبت بقیہ قرض داروں کے ساتھ حصہ لے سکتا ہے اور جب بھی بہانہ سے اپنے مال کو مقروض کے چنگل سے باہر نکال لے تو دیگر قرض داروں کا مقروض نہ ہو گا. سوال ٥٠٠. اگر کوئی شخص مضاربہ کے پیسہ کا فائدہ دینے کی وجہ سے دیوالیہ ہو جائے اور اس سے قرض کے طلبگار وہی افراد ہوں جہنوں نے اس سے فائدہ لیا ہے اور ان میں سے اکثر افراد نے جتنا پیسہ مضاربہ کے طور پر دیا ہو اس کے برابر یا اس سے زیادہ فائدہ لے چکے ہوں(بغیر اس کے کہ عامل نے اس پیسہ سے کوئی تجارت کی ہو) تو دیوالیہ شخص کے قرض کے ادا کرنے کی کیا صورت ہے؟ جواب: اس شخص کا قرض اپنی جگہ پر باقی ہے اور ادا کیا گیا پیسہ قرض کی جگہ پوری نہ کرے گا دلیل اس کی یہ ہے جو کچھ اس نے ادا کیا رضایت کی بنا پر تھا اور مفت میں تسلط(قبضہ) دے دینے میں کوئی ضمانت نہیں ہے. سوال ٥٠١. اگر کوئی پیسہ قرض لے اور ادا کرنے کے وقت مہنگائی کی وجہ سے پیسہ کی قیمت میں کمی آجائے اس طرح کہ صاحب قرض کو نقصان ہو جائے تو کیا صاحب قرض کو یہ حق ہے کہ جتنا پیسہ کی قیمت میں کمی آگئی ہے اس کا مقروض شخص سے مطالبہ کرے اگر ایسا ہے تو کیا پیسہ کی ارزش کے لئے سونے کی موجودہ قیمت کو معیار قرار دے سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اس صورت میں جب مقروض شخص نے قرض ادا کرنے میں کوتاہی کی ہو اور معین مدت میں قرض نہ ادا کیا ہو تو کیا حکم ہے؟ کیا پیسہ کی مالیت کا ضامن ہے یا نہیں؟ جواب: استنتاجی قرضوں میں قرض دیتے وقت اس کی مالیت کو سونے یا کسی دوسری چیز سے معلوم کر سکتا ہے اور پھر اس کی مالیت کو قرض کے بطور دے سکتا ہے مثلاً اس طرح کہے«یہ رقم جس کی مالیت نصف مثقال سونا ہے میں تمہیں قرض دے رہا ہوں کہ ادا کرتے وقت اتنی ہی مالیت رائج سکہ کی صورت میں ہمیں واپس کرو»اگر اس کے ادا کرنے میں اس نے تاخیر کی ہو تو شرط کے ساتھ اپنے نقصان و گھاٹے کو لے سکتا ہے مثلاً اس سے کہے کہ اگر معین وقت پر تم نے ادا نہ کیا تو نقصان کے ضامن ہو اور اگر مقروض سخص شرط کے بغیر قدرت ہونے کے باوجود قرض ادا کرنے میں تساہل کرے تو نقصان اور گھاٹا لینا بعید نظر نہیں آتا ہے.
|