|
احکام تقليد
بسم للہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ رب العالمين و الصلاة و السلام علي خير خلقہ محمد و آلہ الطاھرين و لعنة اللہ علي اعدائھم اجمعين الي يوم الدين. مسئلہ 1. مسلمان کو چاہئے اصول دين پر يقين رکھتا ہو ليکن اصول دين کے علاوہ دين کے ديگر احکام ميں يا خود مجتہد ہو تا کہ احکام کو دليل کي بنياد پر حاصل کر سکے، يا پھر کسي مجتہد کي تقليد کرے يعني اس کے حکم کے مطابق عمل کرے، يا پھر تيسري صورت احتياط ہے يعني اس طرح اپنے وظيفہ پر عمل کرے کہ بري الذمہ ہوجانے کا يقين ہو جائے مثلاً اگر بعض مجتہدين کسي عمل کو حرام سمجھتے ہيں اور بعض اس کو حرام نہيں سمجھتے تو اس عمل کو انجام نہ دے اور اگر کسي عمل کو بعض واجب کہتے ہوں اور بعض مستحب سمجھتے ہوں تو اسے بجا لائے لہذا جو افراد مجتہد نہيں ہيں اور احتياط پر بھي عمل نہيں کر سکتے ان پر واجب ہے کہ مجتہد کي تقليد کريں بلکہ جو افراد احتياط پر عمل کر سکتے ہيں ان کے لئے بھي اولي? اور احوط يہ ہے کہ تقليد کريں اور احتياط پر عمل کرنا ترک کر ديں اور ںاگفتہ نہ رہ جائے کہ احتياط پر عمل خود درجہ اجتہاد تک علمي قدرت کا محتاج ہے يا پھر احتياط کي کيفيت ميں تقليد ہے بہر حال يہ مشکل اور سخت کام ہے. مسئلہ 2. احکام ميں تقليد، يعني مجتہد کے حکم کے مطابق عمل کرنا ہے اور اس مجتہد کي تقليد کرني چاہئے جو بالغ، عاقل، شيعہ اثنا عشري، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو. نيز بنا بر احتياط واجب اس مجتہد کي تقليد ہوني چاہے جو دنيا کي بہ نسبت حريص نہ ہو اور ديگر مجتہدين کے مقابل اعلم ہو يعني خدا کا حکم سمجھنے ميں اپنے زمانہ کے تمام مجتہدوں سے زيادہ ماہر ہو. مسئلہ 3. اگر کسي نے اپنے مجتہد کا فتوي کسي عادل شخص سے سنا اور اس پر عمل کيا مثلاً ا نے يہ سنا کہ گيلي مٹي پير کے نجس تلوے کو پاک کر ديتي ہے اور اپنے پير کے نجس تلوے کو اس سے پاک کرنے کے بعد اس نے نماز پڑھي اور بعد ميں اس کے بر خلاف معلوم ہو تو اگر وقت باقي ہو اعادہ کرے اور اگر وقت گزر چکا ہو تو احواط يہ ہے کہ اس کي قضا کرے. مسئلہ4. ميت کي ابتداء سے تقليد جائز نہيں ہے ليکن ميت کي تقليد پر باقي رہنے ميں کوئي حرج نہيں ہے اور مردہ مجتہد کي تقليد پر باقي رہنا زندہ مجتہد کي اجازت سے ہونا چاہئے. اگر کسي نے بعض مسائل ميں کسي مجتہد کے فتوے پر عم لکيا تو وہ اس مجتہد کے انتقال کے بعد تمام مسائل ميں حتي جن مسائل ميں عمل نہيں کيا ہے ان ميں بھي اس کي تقليد کر سکتا ہے اسي طرح جس مسئلہ ميں چاہے زندہ مجتہد کي تقليد کر سکتا ہے يا تمام مسائل ميں زندہ کي طرف رجوع کر سکتا ہے چونکہ ہمارے نظريہ کے مطابق اگر چہ ميت، زندہ مجتہد کي نسبت اعلم ہو تو بھي مطلقاً بقاء جائز ہے نہ کہ واجب. مسئلہ 5. اعلم کي تقليد واجب مطلق ہے نہ کہ مشروط، اس معني ميں کہ آدمي اعلم کي شناخت پيدا کرے اور پہچانے کہ اعلم کون ہے. مسئلہ 6. ايک زندہ مجتہد سے دوسرے مجتہد کي طرف عدول جائز نہيں ہے ہاں اگر اعلم ہو تو جائز ہے. مسئلہ 7. اگر دو مساوي مجتہدوں ميں سے ايک «ادرع» يا فتوے ميں ادرع ہو تو ادرع مقدم ہے، ليکن اعلم عادل، اعدل عالم پر مقدم ہے. مسئلہ 8. غير اعلم کي طرف اس مسئلہ ميں رجوع کرنا جس ميں اعلم کا فتوي نہيں ہے احتياط واجب تامل اور محل اشکال کي طرح ہے الاعلم فالاعلم کي رعايت کے ساتھ کوئي حرج نہيں ہے. سوال 9. ايک شخص موضوع تقليد سے بے خبر تھا ليکن جب بھي اسے کوئي مسئلہ پيش آتا تھا مجتہد وقت کے رسالہ عمليہ کو ديکھ کر عمل کرتا تھا کيا صرف اتنا تقليد کے محقق ہونے ميں کفايت کرے گا؟ اور اس کي وفات کے بعد تقليد پر باقي رہنے کے لئے کافي ہوگا؟ جواب: ہاں کافي ہے.
|