|
متعہ یا صیغہ
مسئلہ ٥٨٥. عورت کے ساتھ صیغہ(متعہ) کرنا چاہے لذت اٹھانے کی غرض سے نہ بھی ہو صحیح ہے.
مسئلہ ٥٨۶. متعہ کی صورت میں زوجہ کے ساتھ ہمبستری کرنے کا حکم دائم کی طرح ہے اگرچہ آیت متعہ کر شامل نہ کرے لیکن بالمقابل تقیید پر حجت ہونا بھی اسے شامل نہ کرے گا اور بالجملہ انصراف اگر تمام ہو تو دونوں دلیلوں میں ہے یعنی دلیل مطلق میں بھی ہے اور دلیل مقید میں بھی ہے. مسئلہ ٥٨٧. جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہے اسے ساتھ سونے کا حق حاصل نہیں ہے شوھر کی میراث اسے نہ ملے گی اور شوھر کو بھی اس سے میراث نہ ملے گی. مسئلہ ٥٨٨. مرد نے جس عورت سے متعہ کیا ہے وہ اس کا عدہ خرم ہونے سے پہلے اس سے دائمی عقد کر سکتا ہے. سوال ٥٨٩. ایک عورت دائمی عقد ازدواج کی دعویدار ہے اوراس بارے میں دلائل بھی رکتھی ہے اور فقط ازدواج موقت اور اس کی مدت کے ختم ہو جانے کا اقرار کرتی ہے عورت ابتداً ازدواج موقت کو قبول کرتی ہے(لیکن اس کے ساتھ یہ بھی) اظہار کرتی ہے کہ دائمی ازدواج کو انجام پایا ہے اس بات کے پیش نظر کہ ازدواج موقت کے بعد طرفین نے عقد دائم کا دعوا کر لیا ہے لیکن اب شرھر اس بات کا مدعی ہے کہ بالفرض دائمی ازدواج انجام پا بھی گیا ہو لیکن عقد موقت کی مدت ختم ہونے سے پہلے تھا پس عقد دائم باطل ہے لہذا مذکورہ بالا باتوں کے پیش نظر چونکہ طرفین دائمی عقد کے منعقد ہونے سے پہلے عقد موقت میں تھے عقد دائم کے سلسلے میں ان کے واضح مقاصد کو دیکھتے ہوئے اور مہریہ تعین کرتے اور صیغہ عقد پڑھتے ہوئے اس کے بارے میں ارادہ کرنا بالفرض یہ ثابت ہو بھی جائے کہ عقد دائمی، عقد موقت کی مدت ختم ہونے سے پہلے انجام پایا ہے کیا عقد دائمی کے منعقد ہوتے وقت، عقد موقت سے عملی انصراف کو مد نظر رکھتے ہوئے، دائمی عقد کو باطل جان سکتے ہیں؟ جواب: میری آخر نظر کے مطابق، عقود بالخصوص نکاح کے عمومات اور اطلاقات عامہ کے مطابق زمان عقد سے باقی ماندہ مدت میں زوجین کا دائمی عقد نکاح کرنا صحیح اور نافذ ہے اور جو کچھ بعض روایات اور علماء کے فتاوی میں عقد دائم کے بطلان کے حکم میں آیا ہے وہ مہریہ اور مدت کو زیادہ کرنے یا اسی باقی ماندہ مدت میں پہلی مدت ختم ہونے کے بعد دوسرا عقد موقت کرنے سے مربوط ہے اور مذکورہ سوال شامل نہیں جیسا کہ«الجواہر» کی طرف رجوع کرنے سے(یہی) ظاہر ہوتا ہے اوراس مسئلہ کے مکمل ہونے کے قطع نظر اس سے استدلال کرنا تحصیل حاصل ہے حتی بیان شدہ روایات اور فتاوی(بھی) مذکورہ سوال کے بارے میں مکمل نہیں ہے چونکہ عقد نکاح دائم اور موقت میں سے ہر ایک خاص اثار کے حامل ہیں ان سب باتوں کے علاوہ عقد موقت سے عملی انصراف اگر شوہر کی طرف سے ہبہ اور بخشش مدت کی مانند نہ بھی ہو تو مذکورہ سوال سے ادلہ بطلان کے انصراف کا موجب ہے بالفرض وہ ادلہ تمام بھی ہوں بہر حال میری نظر میں مذکورہ سوال میں عقد دائم صحیح اور نافذ ہے. سوال ٥٩٠. کہا جاتا ہے ازدواج موقت فساد(فحاشی) کو روکنے کے لئے ہے کیا لڑکیاں بھی اس مقصد کے لئے اپنی مرضی سے شوہر انتخاب کر سکتی ہیں؟ کیا کوئی باپ ایسی اجازت دے گا؟ جواب: بنیادی طور پر اسلام میں«عقد موقت» ضرورت بر طرف کرنے کے لئے ہے نہ کہ مشروع عیاشی یا ازدواج دائمی کے بدل(کے طور پر) ہے بنا بر این جن کے پاس ان کی بیویاں ہیں اور وہ بیوی کے ذریعہ غریزہ جنسی پورا کر سکتے ہیں عقد موقت خوہ مسلمان عورت ہی سے کیوں نہ ہو، میری نظر میں محل اشکال ہے بلکہ منع وعدم جواز کے حکم میں ہے اور نظام زندگی کے خراب اور تباہ ہونے اور آرام سکون کے برباد ہونے اور دوسرے بہت سے نقصانات کا باعث ہے جوانوں کی مشکل برطرف کرنے کے لئے دوسرے راستوں کی تلاش کرنی چاہئے کہ جس سے جوانوں کے دائمی ازدواج کی مشکل حل کی جا سکے اور باکرہ رشیدہ کی ازدواج موقت کے لئے مطلقاً خواہ عدم مباشرت کی شرط کے ساتھ بھی ہو، باپ کی اجازت شرط صحت ہے.
|