Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ب: قرضي ربا (سود)

ب: قرضي ربا (سود) اس زمانے ميں قرضي ربا کي دو قسميں متصور ہيں: ايک «استہلاکي سود» اور دوسري «انتاجي اور توليدي سود».
استہلاکي سود وہ ہوتا ہے جہاں پر قرضہ لينے والا شخص اپني مجبوري اور ضرورت کي بنا پر قرضہ ليتا ہے. اور کبھي تو اس کي مجبوري اور ضرورت اس حد تک پہنچ جاتي ہے کہ قرضہ واپس دينے کي تاريخ کو کئي مرتبہ مؤخر کرانا پڑتا ہے يہاں تک کہ وہ شخص اصل قرضہ کے دوگنا يا کئي برابر کا مقروض ہو جاتا ہے.
تفاسير، روايت اور تاريخ کي کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت صرف اسي استہلاکي ربا کا ہي رواج تھا. خواہ يہ زيادت قرضہ لينے کي ابتدا ہي ميں شرط کي جاتي جسے فقہي اصطلاح ميں «قرض بہ شرط» کہا جاتا ہے يا يہ سود، قرضہ واپس دينے ميں تأخير کي وجہ سے، يا اپنے قرضے کو قسطوں ميں ادا کرنے کي خاطر اس طرح کہ جب قرضہ واپس دينے کي تاريخ آتي تھي اور مقروض شخص قرضہ ادا کرنے سے قاصر ہوتا تو قرضہ دينے والا شخص اس کي مہلت کو بڑھانے کے لئے، کچھ مزيد رقم طلب کرتا.
قرآن کريم ايسے موارد ميں يوں فرماتا ہے:
«و ان کان ذو عسرة فنظرة الي ميسرة» [1]
اور اگر قرض لينے والا تنگ دست ہو تو (اسے) گشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہي دو تو تمہارے لئے زيادہ اچھا ہے بشرطيکہ سمجھو.
قرآن کريم کا يہ حکم عقلائي درک و فہم کے مطابق ہے کہ متعارف حد تک مقروض شخص کو مہلت ديني چاہئے. اس فرض ميں اگر قرضہ دينے والا شخص اس ديني حکم کو نہ مانے اور ربا اور زيادہ مقدار ميں واپسي رقم طلب کرے تو انہي آيات اور روايات کا مشمول ہو گا. اس قسم کو استہلاکي ربا کہا جاتا ہے.
ليکن آج کل سود کي ايک اور قسم بھي متصور کي جا سکتي ہے جو پہلے بہت کم نظر آتي تھي اور يہ آج کل کي مترقي زندگي کے خواص ميں سے ہے. اور وہ يوں ہے کہ مالي لحاظ سے متمکن شخص، اقتصادي سرمايہ کاري کے لئے (جيسا کہ بلڈنگ بنانے، کارخانہ لگانے، فارم و غيرہ بنانے کے لئے) اسے تکيميلي سرمايہ درکار ہو. يعني کافي حد تک اس کے پاس سرمايہ موجود ہو اور کسي کام کو شروع کرنے کي توانائي بھي رکھتا ہو ليکن اپنے سرمايہ کي تکميل کے لئے قرضہ ليتا ہو اور اس قرضے کو کچھ زيادت کے ساتھ واپس لوٹانے کي شرط کرتا ہو.
مثال کے طور پر کسي شخص کو سرمايہ کاري کرنے کے لئے بيس کروڑ کي ضرورت ہے ليکن اس کے پاس پندہ کروڑ موجود ہے. باقي پانچ کروڑ کو ايک سال کے لئے کسي سے قرضہ ليتا ہے، اور واپسي پر سود کے طور پر کچھ مقدار بڑھا کر قرضہ دينے والے شخص يا بينک کو ادا کرتا ہے. اس قسم کے سود کو انتاجي يا توليدي سود کہا جاتا ہے. يعني وہ پيسہ توليد اور اقتصادي ترقي ميں کام آتا ہے.
--------------------------------------------------------------------------------
[1] . سورہ بقرہ، آيت 280
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org